’میرے لیے 4 مہینے کا قرنطینہ کسی خواب کے پورا ہونے جیسا ہے‘
میں کورونا وائرس کا تذکرہ سن سن کر اس قدر بیزار ہوچکا ہوں کہ اب دل کرتا ہے کہ موسمِ سرما میں ریچھ کو آنے والی طویل نیند مجھے بھی نصیب ہوجائے اور میں اس وقت تک نیند سے نہ جاگوں جب تک یہ نامعقول وائرس دفع نہیں ہوجاتا۔
چاہے کوئی اخبار پڑھ لیں، کوئی نیوز چینل دیکھ لیں، ہر جگہ بس اسی وبا سے متعلق خبریں پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر گفتگو کا آغاز اسی موضوع سے ہوتا ہے اور انجام بھی اسی پر ہوتا ہے، اور میرا واٹس ایپ اور ای میل ان باکس تو اس وائرس سے متعلق ہدایات اور خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مہلک بیماری ہے خاص طور پر میری عمر کے افراد کے لیے، لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں پوری زندگی اس وائرس کی پَل پَل خبر رکھنے سے بہتر ہے کہ اس انفیکشن کا خطرہ اٹھا لیا جائے۔ یقیناً یہ ایک ایسی تباہی ہے جس نے عالمی معیشت کو داؤ پر لگا دیا ہے، لیکن ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جہاں آپ کو وائرس کے علاوہ دیگر چیزوں پر سوچنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔