پاکستان

یہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے انکار مگر سندھ حکومت نے اس کا اعلان کردیا۔

کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے متاثر پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبے سندھ کی حکومت نے 22 مارچ کو اعلان کیا کہ صوبے میں 23 مارچ کے شروع ہوتے لاک ڈاؤن شروع ہوجائے گا۔

صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کیا، جنہوں نے واضح کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران سارے دفاتر،اجتماع گاہیں اور عوامی ٹرانسپورٹ بھی بند رہے گی۔

لاک ڈاؤن کے دوران اگرچہ شہر میں نقل و حرکت بند ہوگی تاہم شہر بھر کے علاقوں میں موجود میڈیکل اسٹورز، بیکری، دودھ فروش، سبزی و پھل فروش اور گوشت فروش سمیت اشیائے خورونوش کی دکانیں کھلی رہیں گی، تاہم ان کی بڑی مارکیٹیں بند رہیں گی۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق غیر ضروری طور پر کسی بھی شخص کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی اور انتہائی مجبوری کی حالت میں اگر کوئی گھر سے نکلے تو اپنا شناختی کارڈ ساتھ رکھے۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران صرف کسی بیمار شخص کو ہی علاج کے لیے ہسپتال جانے کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں آج رات سے 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے پیش نظر سندھ لاک ڈاؤن کرنے والا پہلا صوبہ بھی بنا اور یہی وہ پہلا صوبہ تھا جہاں فروری میں پہلا کیس سامنے آیا اور تب سے یہاں کی صوبائی حکومت متحرک دکھائی دیتی ہے۔

صوبہ سندھ سمیت پاکستان کی بہت بڑی آبادی پہلی بار کسی وبا یا بیماری کی وجہ سے شہر کو بند ہوتا ہوا دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ کورونا وائرس کا لاک ڈاؤن سے کیا تعلق اور یہ لاک ڈاؤن ہوتا کیا ہے؟

یہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟

لاک ڈاؤن دو انگریزی الفاظ لاک اور ڈاؤن کا امتزاج ہے اور اس کی اردو میں معنی تالابندی یا حرف عام میں کسی بھی علاقے میں نقل و حرکت پر پابندی ہوتی ہے۔

معروف انگریزی ڈکشنری کے مطابق لاک ڈاؤن کی انگریزی اصطلاح پہلی بار 1973 میں سامنے آئی جس کے بعد اس اصطلاح کو وقتاً فوقتاً استعمال کیا جاتا رہا اور عام طور پر یہ اصطلاح ریاستی اداروں یا حکومت کی جانب سے ہنگامی اقدامات کے پیش نظر اٹھائے گئے اقدامات کے دوران استعمال کی جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن کی اصطلاح کسی بھی حکومت کی جانب سےاس وقت ہی استعمال کی جاتی ہے جب بھی کوئی حکومت کسی بھی طرح کے ہنگامی اقدامات اٹھائے اور اس دوران وہ مخصوص یا تمام علاقے کو نقل و حرکت کے لیے بند کردے۔

نقل و حرکت بند کرنے کا مقصد علاقے یا ملک میں کسی بھی خطرناک چیز کو داخل ہونے سے روکنا یا پھر وہاں سے کسی بھی منفی چیز کے دوسرے مقام تک پھیلنے کو روکنا ہوتا ہے۔

عام طور پر لاک ڈاؤن یعنی علاقے کی تالا بندی یا مذکورہ علاقے میں نقل و حرکت پر پابندی کا اطلاق انتظامیہ کی جانب سے کیا جاتا ہے تاہم بعض اوقات کوئی ریاستی ادارہ خصوصی طور پر سیکیورٹی ادارے بھی جزوی لاک ڈاؤن کا اطلاق کر سکتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی اصطلاح کے استعمال میں دنیا بھر میں جنوری 2020 کے وسط میں اس وقت تیزی آئی جب چین نے اپنے ہاں کورونا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر شہروں کو بند کرنا شروع کیا۔

ابتدائی طور پر چین کی حکومت نے بھی شہروں کو بند کرنے کے لیے شٹ ڈاؤن یا کلوز جیسے انگریزی لفظ استعمال کیے تاہم جنوری کے آخر میں چینی حکام اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام نے کورونا وائرس کی وجہ سے چینی شہروں کی عارضی بندش یا وہاں پر نقل و حرکت پر پابندی کے لیے لاک ڈاؤن کا لفظ استعمال کیا۔

جنوری کی آخری ہفتے میں چینی حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر اپنے 15 شہروں کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا اور عالمی ادارہ صحت نے چینی حکام کے لاک ڈاؤن کے فیصلے پر عدم اطمینان ظاہر کیا.

چین نے کورونا وائرس کے پیش نظر کم سے کم اپنے 30 شہر کو مکمل یا جزوی طور پر لاک ڈاؤن کیا اور اسی وجہ سے ہی چین نے وبا پر قابو پایا.

لیکن چین کے بعد جب کورونا وائرس جنوبی کوریا پہنچا تو حیران کن طور پر جنوبی کوریا نے لاک ڈاؤن نہیں کیا بلکہ لوگوں کو گھروں تک محدود کیا اور انتہائی کم وقت میں چین سے بھی زیادہ تیزی سے وائرس پر کنٹرول کرلیا.

اگرچہ جنوبی کوریا کے حوالے سے امریکی حکام نے بھی یہ تک کہہ دیا تھاکہ جنوبی کوریا کے پاس اچھی خاصی تربیت یافتہ فوج ہے اور وہ کورونا سے بچنے کے لیے 30 دن تک لاک ڈاؤن نافذ کرے مگر کوریا نے ایسا نہیں کیا اور جلد ہی دوسرے طریقے استعمال کرکے وائرس پر قابو پایا.

جنوبی کوریا کے بعد جب کورونا وائرس ایک دم ایران پہنچا تو وہاں کی حکومت بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور حکومت نے شہروں کے اہم مراکز، عبادت گاہیں، تعلیمی و حکومتی ادارے بند کردیے اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی.

دیکھتے ہی دیکھتے ایران میں تیزی سے کورونا وائرس پھیلنے لگا اور وہاں 22 مارچ کی شام تک مریضوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 1500 سے زائد ہو چکی تھی مگر ایران نے اس وقت تک کسی بھی علاقے میں کمل طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں کیا تھا.

ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی کورونا وائرس کے بڑھنے کے باوجود 15 مارچ کو اعلان کیا کہ وہ لاک ڈاون نافذ نہیں کریں گے.

ایران کے بعد جب کورونا وائرس اٹلی پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے اٹلی میں مذکورہ وائرس تیزی سے پھیلنے لگا تو اٹلی نے وائرس کے دوسرے ہی ہفتے لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کردیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور وہاں پر مریض حد سے زیادہ رپورٹ ہونے لگے.

ابتدائی طور پر ہی جزوی لاک ڈاؤن نہ کرنے یا پھر لوگوں کو گھروں تک محدود نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی میں اب تک سب سے زیادہ یعنی 5 ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور 22 مارچ کی شام تک وہاں مریضوں کی تعداد 55 ہزار تک جا پہنچی تھی.

اٹلی نے پہلی بار 10 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا اور فوری طور پر لوگوں کو گھروں میں بند کردیا اور تاحال وہاں پر صورتحال سب سے زیادہ تشویش ناک ہے اور اب تک لوگ گھروں میں محصور ہیں.

خیال کیا جا رہا ہے کہ اٹلی میں لاک ڈاؤن مزید 2 ہفتے چل سکتا ہے تاہم آنے والے حالات کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے.

اٹلی سے سبق سیکھتے ہوئے فرانس نے فوری طور پر 14 مارچ کو بڑے شہروں کے تمام ریسٹورنٹس، عوامی مقامات، ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات کو بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد ازاں تین دن بعد مکمل طور پر کئی علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا.

تاہم اب رپورٹس ہیں کہ فرانسیسی حکومت بھی لاک ڈاؤن کو مزید 15 دن تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے یعنی فرانس میں لاک ڈاون کا عمل اپریل کے پہلے ہفتے تک جاری رہنے کا امکان ہے.

فرانس نے لاک ڈاؤن کا اعلان عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو 11 مارچ کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد کیا.

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا بھر میں وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے میں تیزی دیکھی گئی اور متعدد ممالک نے کورونا کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے پہلے ہی ہفتے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا.

اگلے ہی ہفتے کئی ممالک نے دوسرے ممالک سے فضائی روابط منقطع کردیے، جن ممالک کی آپس میں زمینی سرحدیں ملتی تھیں انہیں بند کیا جانے لگا، یورپی یونین کے تمام ممالک نے ایک دوسرے کی زمینی سرحدیں بند کردیں.

کورونا وائرس کے خلاف اقدامات میں جیسے ہی ہر گزرتے دن اقدامات اٹھانے میں تیزی دیکھی گئی، ویسے ہی کورونا وائرس کا مرض بڑھتا چلا گیا اور محض گزشتہ 2 ہفتوں میں وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد دگنی ہوگئی.

اس وقت اسپین سے لے کر بھارت، اٹلی سے لے کر پاکستان امریکا سے لے کر فرانس اور سعودی عرب سے لے کر خلیجی ممالک تک درجنوں ممالک نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر رکھا ہے جب کہ کئی ممالک نے لوگوں کو گھروں تک محدود کر رکھا ہے.

امریکا کی 50 میں سے بھی کئی ریاستوں نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر رکھا ہے جب کہ کچھ ریاستوں میں جزوی لاک ڈاؤن جب کہ کچھ ریاستوں میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات کی گئی ہیں.

اس وقت پوری دنیا میں تعلیمی ادارے، کاروباری ادارے، کمپنیاں، عوامی مقامات، سینما گھر، ریسٹورنٹس اور یہاں تک مذہبی عبادت گاہیں بھی باالکل بند کردی گئی ہیں یا پھر اگر کہیں کچھ مذہبی عبادت گاہیں کھلی بھی ہیں تو وہاں پر بہت زیادہ لوگوں کے آنے پر پابندی عائد ہے.

لاک ڈاؤن سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟

کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد اب تک کے حالات اور متاثرہ ممالک کے لیے گئے جائزے سے ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں کو محدود کرنے سے اچھے نتائج ملتےہیں۔

یہ نوٹ کیا گیا کہ جن ممالک نے عوامی مقامات، ٹرانسپورٹ اور کاروباری اداروں کو بند کرکے لوگوں کو گھروں تک محدود کیا ان ممالک نے اب تک اچھے نتائج حاصل کیے۔

لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے یا شہروں میں عارضی طور پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے دیگر فوائد بھی ہیں اور ان فوائد کا اعلان حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایک رپورٹ میں کیا۔

امریکی ماہرین کی جانب سے چین میں لاک ڈاؤن کے دوران چار مختلف شہروں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیقاتی جرنل میں چین کے چار شہروں کے ڈیٹا کے تجزیے کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن سے جہاں کورونا وائرس پھیلنے کے خطرات کم ہوئے، وہیں چاروں شہروں میں ماحولیاتی آلودگی بھی حیران کن طور پر کم ہوگئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کم ہونے کے باعث ہزاروں افراد کی زندگی محفوظ بنی۔

تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاک ڈاون کیے گئے چار شہروں میں ماحولیاتی آلودگی بہتر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کے 4 ہزار بچوں سمیت مجموعی طور پر 77 ہزار افراد کی جان محفوظ بنی۔

دنیا بھر میں کورونا کیسز کی تعداد 3 لاکھ سے زائد، ہلاکتیں 13ہزار سے تجاوز

کورونا وائرس کیسز، پاکستان مسلم ممالک میں چوتھے نمبر پر

پاکستان سمیت کئی ممالک کو وینٹی لیٹر کی قلت کا سامنا