دنیا

بلڈ پلازما کا عطیہ دے کر کورونا مریضوں کی جان بچانے والے سپر ہیروز

کورونا سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والے شخص کے مریض کے خون میں موجود اینٹی باڈیز دوائی کا کام دے رہی ہیں، ماہرین

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد حال ہی میں چینی و امریکی ماہرین کی جانب سے محدود سطح پر کی جانے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ کورونا سے متاثرہ افراد کے صحت یاب ہونے کے بعد ان کے خون میں اینٹی باڈیز کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے جو دوسرے بیمار افراد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

مذکورہ تحقیقات کے بعد جہاں چین میں بھی کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد سے خون کا عطیہ لے کر کورونا میں مبتلا ہونے والے نئے مریضوں میں بلڈ پلازما دیا گیا تھا، وہیں اب اسی عمل کو امریکا میں بھی آزمایا جا رہا ہے۔

یہی طریقہ دنیا میں 100 سال پہلے 1918 میں اسپینش فلو کے درمیان بھی آزمایا گیا تھا جب کہ اسی طریقے کو 2002 اور 2003 میں سارس کورونا وائرس کے وقت بھی آزمایا گیا تھا۔

بلڈ پلازما دراصل انسانی خون کے دو اہم حصوں میں سے ایک حصہ ہے جسے (خوناب) بھی کہا جاتا ہے، انسانی خون بلڈ پلازما اور سیل (خلیات) پر مشتمل ہوتا ہے۔

بلڈ پلازما کا کام انسانی خون میں شامل خلیات کو تیرنے میں مدد فراہم کرنا ہے اور اسی حصے کے اچھی طرح متحرک ہونے سے ہی انسانی جسم میں پیدا ہونے والے اینٹی باڈیز انسان کی قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔

اینٹی باڈیز دراصل وہ خلیات ہیں جو غلیل نما دکھائی دیتے ہیں اور یہ انسانی خون میں موجود ہوتے ہیں، جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، انہیں ایسی دوائی دی جاتی ہیں کہ ان کے خون میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا وہ مضبوط بن جاتے ہیں اور اگر کسی بھی شخص کی ان اینٹی باڈیز کو نکال کر دوسرے بیمار شخص میں منتقل کیا جائے تو وہ فوری طور پر صحت مند ہو سکتا ہے۔

اور اب امریکی ماہرین اسی فارمولے پر کام کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے کورونا سے صحت مند ہونے والے متعدد افراد نے بلڈ پلازما یا اینٹی باڈیز کی امداد دینا شروع کردی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والی نیویارک کی فوٹوگرافر 45 سالہ ڈیانا بیرنٹ بھی ان متعدد سپر ہیروز میں شامل ہیں جو صحت یابی کے بعد اپنے بلڈ پلازما عطیہ کرنا چاہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے مریضوں کیلئے تجرباتی بلڈ پلازما تھراپی میں مزید پیشرفت

ڈیانا بیرنٹ مارچ کے وسط میں کورونا کا شکار ہوئیں تھیں اور انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا اور وہ شہر کی پہلی صحت مند مریضہ بنی ہیں جن کا بلڈ پلازما حاصل کرنے کے لیے ان کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

ڈیانا بیرنٹ کے ٹیسٹ اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ اب کورونا کے وائرس ان میں موجود نہیں۔

ڈیانا بیرنٹ کے دوران علاج دی گئی دوائیوں کی وجہ سے ان کے جسم میں اینٹی باڈیز طاقتور ہوگئیں یا ان کی تعداد میں اضافہ ہوا، اس لیے اب ماہرین انہیں ان کے خون سے حاصل کرکے دوسرے مریضوں کو فراہم کریں گے۔

امریکی ماہرین کے مطابق کسی بھی کورونا کے مریض میں علاج کے بعد 28 دن کے اندر اندر ان کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا ان میں قوت آجاتی ہے اور چوں کہ اینٹی باڈیز بلڈ پلازما میں حصے میں ہی کام کرتے ہیں اس لیے صحت مند مریض کے خون سے بلڈ پلازما حاصل کرکے دوسرے مریضوں کو دیا جا رہا ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ کسی بھی صحت مند ہونے والے مریض کے لیے گئے بلڈ پلازما سے 3 سے 4 مریضوں کو صحت یاب کیا جا سکتا ہے تاہم فوری طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بلڈ پلازما کا عطیہ ملنے کے بعد بیمار شخص کتنے عرصے میں ٹھیک ہو سکتا ہے۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے ارونگ میڈیکل سینٹر میں کورونا وائرس کے مریضوں میں بلڈ پلازما کی منتقلی کے تجرباتی پروگرام کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹرز کے مطابق اب تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا سے متاثر ہونے والے کسی بھی شخص کا علاج کے دوران مدافعتی نظام 2 ہفتوں بعد قوت بخش ہونے لگتا ہے، جس وجہ سے ان کے خون میں اینٹی باڈیز بننا شروع ہو جاتے ہیں جو کسی بھی وائرس کو ختم کرکے انسان کے مدافعتی نظام کو مزید مضبوط کرنے کا کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کا پلازما کا عطیہ

ڈاکٹرز کے مطابق تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کسی بھی متاثرہ افراد میں اینٹی باڈیز کی بہت زیادہ مقدار یا بہت زیادہ قوت کتنے دن میں بن سکتی ہے تاہم اندازہ ہے کہ متاثرہ شخص کے جسم میں 28 دن بعد اینٹی باڈیز بہت متحرک ہو جاتے ہیں۔

کورونا وائرس سے صحت مند ہونے کے بعد اپنے بلڈ پلازما یا اینٹی باڈیز کا عطیہ دینے کے لیے تیار 45 سالہ ڈیانا بیرنٹ نے صحت مند ہونے والے افراد کو اپنے خون کا عطیہ دینے کے لیے اپیل کی ہے اور انہوں نے فیس بک پر ایک خاص گروپ بھی بنا رکھا ہے۔

ڈیانا بیرنٹ نے فیس بک پر ایک ایسا گروپ بنایا ہے جس میں کورونا وائرس سے صحت مند ہونے والے 17 ہزار کے قریب افراد شامل ہیں اور وہ مذکورہ گروپ میں لوگوں کو اپنے خون کا عطیہ دے کر دوسری کی زندگی بچانے کی اپیل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ڈیانا بیرنٹ نے اپنے بلڈ پلازما کا عطینہ کرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان سے مزید صبر نہیں ہو رہا اور ان کی خواہش ہے کہ جلد سے جلد ان کے کورونا کے آخری ٹیسٹ آجائیں اور وہ دوسرے مریضوں کو بچانے کے لیے اپنا خون عطیہ کریں۔

انہوں نے بتایا کہ بلڈ پلازما نکالنے سے قبل ان کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے اور دیکھا جا رہا ہے کہ ان میں تاحال وائرس تو موجود نہیں۔

ادھر ریاست ٹیکساس کی ہیوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے پہلے سے ہی کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے بلڈ پلازما سے انتہائی بیمار افراد کا علاج شروع کردیا ہے۔

ہیوسٹن یونیورسٹی انتظامیہ نے بتایا کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے درجنوں افراد نے انہیں بلڈ پلازما نکالنے کی درخواست کی ہے، کیوں وہ صحت یاب ہونے کے بعد دوسرے بیمار مریضوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

وبا کے پھیلاؤ کے ان دنوں میں صحت یابی کے بعد اپنے خون کا عطیہ دینے والے افراد کو سپر ہیرو کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور باقی دیگر صحت یاب ہونے والے مریضوں کو بھی بلڈ پلازما عطیہ کرنے کے لیے سامنے آنے کا کہا جا رہا ہے۔

چین کے بعد امریکا سمیت پاکستان میں بھی اب صحت مند ہونے والے مریض بلڈ پلازما کا عطیہ دے کر دوسرے بیمار افراد کی مدد کر رہے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی اور صحت مند ہونے والے افراد بھی ایسی مدد کے لیے سامنے آئیں گے۔