صحت

کیا ہوا میں نمی نئے کورونا وائرس پر اثرات مرتب کرسکتی ہے؟

نئے نوول کورونا وائرس کی وبا پر موسم کے اثرات کا انحصار ممکنہ طور پر کھلے ماحول اور چاردیواری کے اندر موجود نمی پر ہوگا۔

نئے نوول کورونا وائرس کی وبا پر گرم موسم کے اثرات کا انحصار ممکنہ طور پر کھلے ماحول اور چاردیواری کے اندر موجود نمی پر ہوگا۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں نظام تنفس کے امراض کا باعث بننے والے وائرسز کے موسمیاتی رجحانات کا جائزہ لیا گیا۔

عام نزلہ زکام اور فلو کے کیسز سرما کے دوران عروج پر ہوتے ہیں جبکہ وائرسز جیسے سارس اور نئے نوول کورونا وائرس بھی سب سے پہلے سردی کے موسم میں سامنے آئے۔

جریدے Annual Review of Virology میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے پھیلنے اور موسم کے درمیان تعلق کا جائزہ مختلف تحقیقی رپورٹس میں لیا جارہا ہے اور، 2 بنیادی عناصر اس کے لیے اہمیت رکھتے ہیں وہ ہے ماحولیاتی پیرامیٹر اور انسانی رویوں میں تبدیلیاں۔

مختلف درجہ حرارت اور نمی سے وائرسز کے پھیلائو اور استحکام پر اثرانداز ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ایک نئے تجزیے سے عندیہ ملتا ہے کہ سرد خشک ہوا سردیوں میں انفلوائنزا کے پھیلنے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔

خشک ہوا کس طرح مدافعت اور وائرس کے پھیلائو پر اثرانداز ہوتی ہے؟

تحقیق میں وضاحت کی گئی کہ کس طرح سردی کی ٹھنڈی اور خشک ہوا نئے کورونا وائرس کے پھیلنے پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ جب سرد، خشک ہوا چاردیواری کے اندر آتی ہے اور پھر گرم ہوتی ہے تو گھر کے اندر نمی کا تناسب گھٹ کر 20 فیصد رہ جاتا ہے، نمی میں اتنی کمی ہوا میں موجود وائرل ذرات کے سفر کو آسان بنادیتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جسم کی سانس کی نالی کے باہر موجود خلیات خشک ماحول میں اچھی طرح کام نہیں کرپاتے، وہ وائرل ذرات کو اس طرح خارج نہیں کرپاتے، جیسا دیگر حالات میں کرتے ہیں۔

مثال کے طور ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 10 فیصد نمی والے ماحول میں چوہوں کا انفلوائنزا وائرس صاف کرنے کا نظام 50 فیصد نمی والے ماحول میں رہنے والے چوہوں کے مقابلے میں ناقص ہوتا ہے۔

اسی طرح خشک ہوا سے چوہوں میں انفلوائنزا انفیکشن کے بعد پھیپھڑوں کی مرمت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

محققین نے بتایا مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے کہ خشک آب ہو ہوا کے نتیجے میں چوہوں کا وائرسز کے خلااف مدافعی ردعمل زیادہ موثر نہیں رہتا۔

تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کھلے ماحول میں بہت زیادہ نمی بھی وائرس کے پھیلائو میں معاونت کرتی ہے، مثال کے طور پر استوائی علاقوں میں ہوا میں موجود ذرات زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بیشتر گھروں اور عمارات میں ہوا کے اخراج کا نظام ناقص ہوتا ہے، جبکہ لوگ بہت قریب رہتے ہیں، جس سے زیادہ نمی کے نتیجے میں وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ لوگ سال کے کسی بھی حصے میں وائرس کو ایک دوسرے سے تعلق اور آلودہ سطح کو چھونے سے پھیلا سکتے ہیں اور بچنے کا بہترین طریقہ ہاتھوں کی صفائی اور سمای دوری کی مشق ہے۔

مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ چوہوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ہوا میں نمی 40 سے 60 فیصد وائرس کی روک تھام کے لیے مثالی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں کو عمارات میں سرد موسم میں ہومی فائیڈرز لگانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

دوسری جانب لندن کالج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں مختلف اقسام کے کورونا وائرسز کا جائزہ لینے کے بعد بتایا گیا کہ کورونا وائرسز سے بیمار ہونے کی شرح فروری میں سب سے زیادہ جبکہ گرم موسم میں سب سے کم ہوتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکا ہے کہ گرم موسم میں اس نئے کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں کمی آجائے مگر یہ رجحان سردیوں میں پھر بدل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ ایک نیا وائرس ہے، تو اس پر موسم کے اثرات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، تو اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ طبی مشوروں پر عمل کیا جائے۔

کورونا وائرس سرجیکل ماسک پر 7 دن تک زندہ رہ سکتا ہے، تحقیق

کورونا وائرس انسانی سانس سے بھی پھیل سکتا ہے، امریکی سائنس دان

بچپن میں دی گئی ٹی بی ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کررہی ہے، تحقیق