پاکستان

کورونا وائرس نے دنیا بھر میں آخری رسومات کو بھی تبدیل کردیا

کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں تدفین سے جڑی روایات میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں۔

ہر مذہب میں آخری رسومات کے انداز مختلف ہیں، مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ اور بدھ مت سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والے مختلف انداز میں اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔

مگر کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں آخری رسومات سے جڑی روایات میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے 24 مارچ کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے انتقال کرنے جانے والے افراد کی لاشیں وائرس کو منتقل نہیں کرتیں۔

تاہم عالمی ادارے نے رشتے داروں کو میت کو نہ چھونے کا مشورہ دیا جبکہ دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے سماجی دوری کی ہدایات کے نتیجے آخری رسومات اور تدفین کے عمل میں بھی کافی کچھ تبدیل ہوا۔

پاکستان اور ترکی

پاکستان میں کورونا وائرس سے جاں بحق افراد کی نماز جنازہ اور تدفین کے عمل کے حوالے سے باقاعدہ گائیڈ لائنز جاری ہوئی ہیں ، یہ ہدایات بہت طویل ہیں جو آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔

ان ہدایات کے تحت میت کو غسل دینے کے لیے مناسب حفاظتی ملبوسات کا استعمال ہوگا جبکہ تدفین کے دوران بھی کم لوگوں کی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے سماجی دوری کو یقینی بنایا جائے گا۔

نماز جنازہ اور تدفین کے عمل میں سماجی فاصلوں کو یقینی بنانے پر کتنا عمل ہورہا ہے ابھی واضح نہیں مگر بی بی سی کی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح خیبر پختونخوا میں کووڈ 19 کے ایک مریض کی نماز جنازہ اور تدفین ہورہی ہے۔

ترکی میں بھی پرہجوم رسومات کو فاصلے سے تدفین میں بدل دیا گیا ہے اور صرف ان افراد کو میت کے غسل کی اجازت دی جارہی ہے جو تدفین کے عمل مین بھی شامل ہوں، قریب ترین رشتے دار اس میں شریک ہوں سکیں گے۔

امام کی جانب محفوظ فاصلے سے نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور ماسک کا استعمال لازمی ہوگا، وہاں تابوت کے قریب جانے اور آخری دیدار کی بھی اجازت نہیں۔

آئرلینڈ اور اٹلی

آئرلینڈ میں بھی نئے قوانین کا اطلاق ہوا ہے، جس کے تحت گرجا گھروں میں تقریب کی اجازت نہیں ، یہاں تک کہ لاش کو بھی فیس ماسک پہنا دیا جاتا ہے، جبکہ تدفین کے دوران بھی کئی، کئی فٹ کا فاصلہ یقینی بنانا ہوگا، ایسی ایک ویڈٰیو بھی سوشل میڈیا پر کچھ دن پہلے وائرل ہوئی تھی۔

اٹلی کے مختلف حصوں میں اب لاشوں کو دفن کرنے کی جگہ انہیں جلایا جارہا ہے کیونکہ تعداد بہت زیادہ بڑھنے سے تدفین کے انتظامات ممکن نہیں رہے۔

اسی طرح آخری رسومات کے دوران لوگوں کو اجازت نہیں بلکہ اس کے لیے ورچوئل انتظامات کیے جارہے ہیں۔

فرانس اور برازیل، 10 سے زیادہ لوگوں کو اجازت نہیں

متعدد ممالک میں تدفین میں شرکت کے لیے لوگوں کی تعداد کو محدود کیا گیا ہے، برازیل اور فرانس دونوں ممالک میں انتظامیہ کی جانب سے لوگوں پر زور دیا گیا ہے کہ تدفین کے دوران 10 سے زیادہ لوگوں کی اجازت نہیں ہوگی۔

برازیل میں غمزدہ افراد کو تابوت سے 6 فٹ دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جو وہاں کی روایتی آخری رسومات سے بالکل مختلف ہے جو عموماً پورا دن جاری رہتی ہیں اور سیکڑوں افراد شریک ہوتے ہیں۔

برازیل میں ہی سائو پائولو میں لاطینی امریکا کے سب سے بڑے قبرستان کی تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں جہاں درجنوں قبریں کھدی ہوئی ہیں مگر تدفین کے دوران چند لوگوں کے سوا کسی کو وہاں آنے کی اجازت نہیں۔

چین اور فلپائن میں فوری جلانے کی ہدایت

چین میں فروری میں اس حوالے سے ضوابط جاری کرتے ہوئے اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی آخری رسومات، تدفین اور دیگر متعلق سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

ان ہدایات کے مطابق وائرس سے ہلاک مریضوں کی تدفین کی بجائے ان کی لاشوں کو قریبی مرکز میں جلایا جائے گا، جبکہ کسی کو بھی یعنی رشتے داروں کو اس عمل کے دوران جلانے والے مرکز میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم جلائے جانے کے بعد باقیات ان کے حوالے کی جائیں گی اور دستاویزات مکمل کیے جائیں گے۔

اب وہاں پابندیاں کافی حد تک نرم کی جاچکی ہیں، مگر آخری رسومات کے حوالے سے فی الحال ان ضوابط پر ہی عمل ہورہا ہے۔

فلپائن میں حکومت کی جانب سے ایک حکم جاری کرتے ہوئے اس مرض سے ہلاک ہونے والے افراد کی میتیں 12 گھنٹے کے اندر جلانے کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے، تاہم اگر مریض مسلمان ہے تو میت کو سیل بیگ میں رکھ کر قریبی مسلم قبرستان میں مسلم روایات کے مطابق 12 گھنٹے میں تدفین کی جائے گی۔

خیال رہے کہ فلپائن میں کیتھولک عیسائی افراد کی تعداد زیادہ ہے جن کی تدفین اور آخری رسومات کا عمل اکثر 3 سے 7 دن تک جاری رہتا ہے۔

عراق اور ایران

ایران اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور 4 ہزار سے ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کسی بھی ایشیائی ملک میں سب سے زیادہ ہیں اور وہاں بھی تدفین کا عمل بالکل تبدیل ہوگیا ہے۔

جیسا مسلمان ممالک میں تدفین کا عمل ہوتا ہے، ایران میں بھی سب کچھ پہلے ویسے ہی ہوتا تھا مگر اب تدفین کے عمل کے لیے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے ، یعنی حفاظتی ملبوسات اور دور دور رہ کر تدفین ہوتی ہے۔

عراق میں بھی اب لوگوں کے اجتماع کی اجازت نہیں اور حفاظتی ملبوسات کے استعمال کے ساتھ سماجی دوری کے اقدامات کو مدنظر رکھ کر یہ عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل

بھارت میں اس حوالے سے نئی ہدایات کے تحت آخری رسومات کے دوران 20 سے زیادہ افراد کی اجازت نہیں۔

اس مرض سے مرنے والوں کی لاشیں جلانے کے بعد راکھ کو دریا میں بہانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

اسرائیل میں ایسے افراد کی لاش کو ایک شیشے کے بوتھ میں رکھا جاتا ہے جہاں سے رشتے دار آخری دیدار کرپاتے ہیں اور تدفین کے عمل میں 20 سے زیادہ لوگوں کو اجازت نہیں، جبکہ یہودی مذہب کی دیگر روایات پر عمل کرنے کی بھی اجازت نہیں، جس کے تحت بیلچے کو چھوا جاتا ہے اور قبر پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔

برطانیہ اور اسپین

برطانیہ میں متعدد کونسلز میں تدفین کی تقریبات پر پابندی عائد کی گئی اور خاندانوں کو آخری رسومات میں شرکت سے روک دیا گیا، جبکہ تدفین کے موقع پر 10 سے زیادہ لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔

چرج آف انگلینڈ نے بھی گرجا گھروں میں فرنیل سروسز پر پابندی عائد کی ہے تاہم مسلمانوں کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ غسل اور نماز جنازہ کی اجازت دی گئی ہے۔

اسپین میں بھی اسی طرح کی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا ہے اور لوگوں کو تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ 3 افراد کسی تدفین کے عمل میں شریک ہوسکتے ہیں۔

امریکا

امریکا میں بھی حالات مختلف نہیں اور اب وہاں آخری رسومات اور تدفین کے موقع پر زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔

اب امریکا بھر میں صرف خاندان کے افراد (10 یا اس سے کم) ہی اس کا حصہ بن سکتے ہیں جبکہ آخری رسومات کو لائیو اسٹریم بھی کیا جاتا ہے۔

عالمی وبا کے 100 دن، کورونا وائرس نے دنیا کو کیسے بدل دیا؟

کووڈ 19 کے شکار افراد کس وقت اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں؟

روس سمیت متعدد ممالک کی کورونا وائرس کے خلاف تجرباتی دوا کی آزمائش