پاکستان

مریضوں کی ’ہوم آئیسولیشن‘ سے وائرس کی مقامی طور پر منتقلی میں اضافہ

حکومت کو روزِ اول سے تمام مریضوں کو اس مقصد کے لیے بنائے گئے آئیسولیشن سینٹر میں داخل کرنا چاہیے تھا، ماہرین

کراچی: کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی بڑی تعداد کو آئیسولیشن مراکز کے بجائے ہوم آئیسولیشن یعنی گھر میں تنہائی اختیار کرنے کی اجازت دینے سے وائرس کی مقامی طور پر منتقلی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں ایک ہزار 668 کیسز سامنے آئے جس میں سے ایک ہزار 97 کیس کراچی کے ہیں اور اس میں زیادہ تر یا تقریباً ایک ہزار 37 کیسز مقامی طور پر منتقلی کے ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ حکومت کو روزِ اول سے تمام مریضوں کو اس مقصد کے لیے بنائے گئے آئیسولیشن سینٹر میں داخل کرنا چاہیے تھا اور ان آئیسولیشن سینٹرز کو اس حد تک بہتر بنانا چاہیے تھا کہ اہلِ خانہ کو اپنے مریض کو داخل کروانے پر اعتراض نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: 24 گھنٹوں میں 564 کیسز اور 11 اموات، ملک میں متاثرین 6800 سے متجاوز

مقامی منتقلی کے بڑھتے ہوئے کیسز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی بڑی وجہ ان مریضوں کو قرار دیا جاسکتا ہے جن میں معمولی یا بہت کم علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ طبی رہنمائی پر عمل نہیں کرتے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انڈس ہسپتال میں کووِڈ 19 کی سہولت کی نگرانی کرنے والی ماہرِ معتدی امراض ڈاکٹر ثمرین کا کہنا تھا کہ ’ہم ہسپتال میں محدود جگہ ہونے کی وجہ سے ایسے مریضوں کو داخل نہیں کرتے اور صرف تشویشناک مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ معمولی علامتوں والے کچھ مریضوں کو ایکسپو سینٹر کے قرنطینہ سینٹر یا گڈاپ اور دنبہ گوٹھ کے سینٹرز میں بھجوادیا جاتا ہے یا انہیں گھر میں آئیسولیشن کے حوالے سے ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جونیئر ڈاکٹر کورونا وائرس کنٹرول سینٹر کا سربراہ مقرر

تاہم زیادہ تر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ان رہنما ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور اپنے دوست احباب سے رابطہ رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں اہلِخانہ اور دیگر افراد بھی وائرس سے متاثر ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب انہیں معمولی علامتیں ہیں تو اس بیماری کو خطرناک کیوں قرار دیا جارہا ہے۔

اسی طرح کے تحفظات کا اظہارپاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر عبدالغفور نے بھی کیا کہ ایکسپو سینٹر میں 12 سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کو کورونا مریضوں کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیلڈ ہسپتال میں 50 سے بھی کم مریضوں کو رکھا گیا ہے جو انسانی اور مالی وسائل کا ضیاع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حسیدر آباد میں زیر علاج مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی

آئیسولیشن سینٹرز کے حوالے سے عوام کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغفور نے بتایا کہ اس سلسلے میں حکومت کا کام ہے کہ عوام کے تحفظات کو دور کرے اور ان سہولیات کا معیار اتنا بہتر بنائے کہ مریض اور اس کے اہلخانہ آرام دہ محسوس کریں۔

ساتھ ہی انہوں نےکراچی کے سول ہسپتال میں 4 وارڈز کو کورونا مریضوں کے لیے مختص کرنے کے فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ ہسپتال میں آنے والے دیگر مریض کہاں جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ان آئیسولیشن سینٹرز کو کووِڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

دوسری جانب صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان عاطف ویگھو کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو ان آئیسولیشن سینٹرز میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے، عوام ان جگہوں پر داخل نہیں ہونا چاہتے تاہم جن لوگوں سے گھروں میں آئیسولیشن اختیار کی ہے ضلعی صحت افسران ان سے رابطے میں ہیں اور روزانہ تفصیلات پوچھتے ہیں'۔

گلابوں کو ترستی قبریں: کورونا وائرس سے مرنے والوں کے غسل اور کفن دفن کا عمل

پاکستانیوں کے ساتھ بھارتی فنکاروں کو کام کرنے سے روکنے پر علی سیٹھی کا جواب

کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی