پاکستان

کورونا لاک ڈاؤنز سے دنیا کو احساس ہورہا ہے کہ کشمیری کن حالات میں ہیں، وزیر خارجہ

بھارت میں کورونا کو مسلمانوں سے منسوب کیا جارہا ہے،کشمیری ایسے حالات میں وائرس کا مقابلہ کررہے ہیں،شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس لاک ڈاؤنز سے دنیا کو احساس ہورہا ہے کہ کشمیری ایک سال سے کن حالات میں ہیں۔

خیال رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے متعلق ملکی پالیسی پر تبادلہ خیال کے لیے سینیٹ اجلاس ہوا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ اس کا دورانیہ دوپہر 12 سے شام 5 بجے تک رکھا گیا ہے تاکہ تمام اراکین اظہار خیال کرسکیں تاہم اجلاس 5 بجے کے بعد بھی جاری رہا اور افطار کے وقت اختتام پذیر ہوا۔

اجلاس کے آغاز پر کچھ سینیٹرز کی ذاتی وجوہات پر عدم شرکت کی درخواست منظور کی گئی اور افغانستان میں حملے کے نتیجے میں بچوں کی موت کی مذمت بھی کی گئی اور حملے میں جاں بحق افراد کے ایصال ثواب کے لیے دعا بھی کی گئی۔

سینیٹ اجلاس کے اختتام میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا کو احساس ہورہا ہے کہ لاک ڈاؤن کیسے لگتا ہے، اب کشمیریوں کے بارے میں سوچیں جو تقریباً ایک سال سے لاک ڈاؤن اور محاصرے میں ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے متعلق تمام پالیسیز مشاورت کے ساتھ تشکیل دی جارہی ہیں، وزیر خارجہ

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ برس خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کے بنیادی حقوق جیسا کہ زندہ رہنے کا حق، خوراک اور اظہار آزادی رائے کے حقوق دستیاب نہیں ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی صورتحال کے باعث مقبوضہ کشمیر کے حالات مزید بگڑرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی پیچیدگیاں موجود ہیں لیکن اس میں سب سے اہم مقبوضہ کشمیر ہے اور بھارت نے 5 اگست 2019 کے اقدام سے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیری گزشتہ 9 ماہ سے محصور ہیں اور لاک ڈاؤن کا شکار ہیں اور انہیں بنیادی حقوق دستیاب نہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا کی سوچ رکھنے والی بھارت کی سیکولر شناخت کو بگاڑ دیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو ہورہا ہے اسی وجہ سے اب بھارت کے اندر سے بہت آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن اس کے باہر بھی بھارت میں اقلیتوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 5 اگست سے لے کر اب تک ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور کشمیری قیادت بھی جیل میں موجود ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بے جی پی کی ہندوتوا سوچ رکھنے والی حکومت مسلمانوں سے منسوب بھارتی ثقافتی مقامات کے نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا مقبوضہ کشمیر میں ڈومیسائل کے قانون کو تبدیل کرکے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اشیائے ضروریات موجود نہیں اور کشمیری ان حالات میں کورونا کا مقابلہ کررہے ہیں، اطلاعات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

'بھارت میں مسلمانوں کو 'سپر اسپریڈرز' قرار دیا جارہا ہے'

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں کورونا وائرس کو مسلمانوں سے منسوب کیا جارہا ہے اور انہیں 'سپر اسپریڈرز' قرار دیا جارہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت حوالے سے 'کورونا جہاد' جیسی اصطلاحات استعمال کررہا ہے اور اس کے اثرات کئی سالوں تک مرتب ہوں گے کیونکہ اب دنیا میں اسلاموفوبیا تیزی سے پھیل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے کاروبار بائیکاٹ کرنے کی مہم چل رہی ہے اس لیے ان کی زندگیاں اور روزگار خطرے میں ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق اسلاموفوبیا پھیلایا جارہا ہے اور اس حوالے سے ہم نے کچھ ممالک کو لکھا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بچے کئی ماہ سے اسکول نہیں جارہے جبکہ صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزیاں جاری ہیں تاکہ دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹائی جاسکے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے کچھ جمہوری اقدامات کیے ہیں جس کے باعث اب عالمی برادری بھارت کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ 5 اگست کے بعد سے 3 مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر پر غور کیا جاچکا ہے اور ایسا 55 سال بعد ہوا ہے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ہو، مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور ظالم قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو انٹرنیشنل فورم کے سامنے اٹھاتے رہیں گے۔

حساس معاملات کو سیاسی فائدوں کے لیے نہیں اٹھانا چاہیے، شبلی فراز

سینیٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہمارا جی ڈی پی مشکل سے 300 ارب ڈالر ہے، ہمارے کیسز 30 ہزار سے تجاوز کرگئے ہیں اور اموات 700 کے قریب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں میں ڈوبے ہمارے ملک میں ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں جتنے بڑے بحران کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہہ پالیسی بنانے میں سب سے پہلے توجہ کے مستحق یومیہ اجرت کمانے والے، ریڑھی لگانے والے رکشے والے لوگ ہوتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان فلاحی سوچ رکھتے ہیں اور اسی طبقے کی طرف پہلے سوچتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی حکمت عملی وبا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی بھوک بھی دور کرنے پر مبنی ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بڑا معاشی پیکج دیے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ معاشی پیکج میں فلیگ شپ پروجیکٹ احساس پروگرام تھا جس کے تحت 100 ارب روپے سے زائد رقم تقسیم کی جاچکی ہے اور یہ پروگرام جاری ہے لیکن ہم نے اپنے وسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ صوبائیت کا الزام واپس لیں یا استعفیٰ دیں، بلاول کا مطالبہ

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ مشاہداللہ خان نے ذکر کیا کہ احساس پروگرام میں احسن اقبال کے نام بھی آیا ازراء تفنن کہوں گا یہ نام آپ ہی نے ڈلوایا ہوگا کہیں کا پیسا نہیں چھوڑتے آپ، کچھ بھی نہیں چھوڑتے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت نے تمام صوبوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور کسی کے ساتھ ’امتیازی رویہ‘ نہیں روا رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق، کورونا وائرس بحران پر سیاست نہیں کرنا چاہتا اور اپوزیشن الزام تراشیاں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام صوبوں کو حفاظتی سامان اور رقم فراہم کی ہے، سندھ کو 31 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔

شبلی فراز نے اپوزیشن کو تجویز دی کہ حساس معاملات کو سیاسی فائدوں کے لیے نہ اٹھائیں، انہوں نے اپوزیشن کو تجویز دی کہ ایسے معاملات پر بات نہ کریں جس سے قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، ملک کو اس وقت قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن سے وبا سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کے بارے میں بتانے کا کہا۔

سینیٹ اجلاس کے دوران تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے متعدد سوالات اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیا اپوزیشن کا کوئی اپنا پلان ہے، کیا وہ کرفیو چاہتے ہیں، جب اپوزیشن نے اجلاس طلب کیا تو انہوں نے شرکت کیوں نہیں کی‘۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو خود کو ’سیاسی انتقام کا نشانہ‘ ظاہر کرنے کے بجائے ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔

وزیراعظم نے کورونا وائرس سے متعلق اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، مشاہد اللہ

ان سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس روز پاکستان میں وبا پھیلی تو ایک افراتفری پھیل گئی، 4 مارچ کو جس طرح اجلاس ختم کیا گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن کے کہنے پر اجلاس بلائے گئے حکومت کو یہ اجلاس خود بلانے چاہیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ڈاکٹر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر فرض انجام دے رہے ہیں تو پارلیمنٹ اجتماعی ذمہ داری ہے 4 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس جاری رہنا چاہیے تھا کیونکہ ہم نے اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے اور 2 ماہ سے زائد عرصے تک دونوں ایوانوں کے اجلاس نہیں ہوئے۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ صرف کورونا وائرس کے بارے میں بات کرنے کا کہا گیا اب تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا کیا ہے، روزانہ ڈاکٹر ہمیں چینلز پر بیٹھ کر بتاتے ہیں کورونا سے کیسے نمٹنا ہے، اس کا علاج نہیں ہے ویکسین آئے گی بھی تو اس میں ڈیڑھ سے 2 سال کا عرصہ لگ جائے گا۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کورونا سے صحتیاب

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے اس دوران پارلیمنٹ کا کیا کام ہے؟ حکومت کا کیا کام ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا سب سے بڑا عہدیدار وزیراعظم ہوتا ہے اور میرے خیال میں انہوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آئے۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشاہداللہ خان نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ صبح سے رات تک کام کررہے ہیں، لاک ڈاؤن پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے، کچھ اعلان کرتے ہیں لیکن کچھ اور ہوجاتا ہے، کیا کررہے ہیں ہمیں معلوم تو ہے؟

انہوں نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ کورونا پر بات کی جائے سیاست نہ کرو جیسے یہ کوئی گالی ہے۔

'احسن اقبال کو احساس پروگرام کا پیغام موصول ہوا'

مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یومیہ اجرت کا مسئلہ حل نہیں ہوا، اس کے علاوہ بینظیر انکم سپورٹ (بی آئی ایس پی) کا ڈیٹا موجود ہے اس کے مطابق لوگوں کو رقم دی گئی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام شروع ہوا ہے ایسا عجیب و غریب ڈیٹا ہے کہ احسن اقبال کو بھی 12 ہزار روپے کا پیغام چلا گیا کہ پیسے آکر لے لیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے ہم بہت کام کررہے ہیں، کیا کام کررہے ہیں؟ راشن دینے کا بہت سی فلاحی تنظیمیں کرتی رہی ہیں اور کرتی ہیں حکومت کہاں ہے؟ اجلاسوں میں کچھ طے بھی کرنا چاہیے۔

مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سب سے پہلے قومی اتفاق رائے قائم کرنی چاہیے تھی، شہباز شریف نے وطن آتے ہی پیغام دیا کہ ہمارے ہسپتال حاضر ہیں لیکن پیشکش کو ٹھکرادیا گیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میں وزیراعظم کے ساتھ ہوں اور ہم اس وبا کا مل کر مقابلہ کریں گے ان کے بیان کو بھی ٹھکرادیا گیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں اور میرے 40 ہزار رضا کار حاضر ہیں انہیں بھی ٹھکرادیا گیا لیکن ٹائیگر فورس بنالی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کل حالات دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کورونا ختم ہوگیا، اسد عمر

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرے، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین پر 13 لوگوں نے واک آؤٹ کیا جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا ’حکومت شہباز شریف سے، بلاول بھٹو زرداری اور سراج الحق سمیت دیگر رہنماؤں سے بات کریں، ہمیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وبا میں ختم نبوت کی بات ہوئی، ان معاملات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے، اپنے ایمان کو وزن دیں اور اس مسئلے کو مت چھیڑیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’شکور نامی قادیانی آپ کی شکایتیں لگاتا ہے تو آپ کی ٹانگیں کانپتی ہیں، تل ابیب میں مودی کسی قریشی کو گلے لگاتا ہے آپ اس کو کیوں نہیں سمجھتے، اس مسئلے کو کیوں اٹھارہے ہیں‘۔

انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے اور ہمارا ایمان ہے، اس مسئلے کو چھیڑنے سے گریز کریں‘۔

موبائل، لیپ ٹاپ کی خریداری کیلئے آسان اقساط پر قرضے دیے جائیں، عتیق شیخ

سینیٹ اجلاس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ہم جب دیکھتے ہیں کہ کیا ایک عام فرد کو صحت کی سہولیات میسر ہیں، تو ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو لاک ڈاؤن ہے کہ اسے ہم نے 'پب جی' یا 'لڈو' کھیل کر گزارنا ہے یا کچھ سیکھنا ہے، 3 ماہ پہلے کی دنیا الگ تھی، آج کی دنیا الگ ہے اور 3 ماہ بعد دنیا مکمل طور پر بدل جائے گی اب ڈیجیٹلائزیشن کا دور ہے۔

میاں عتیق شیخ نے کہا کہ بے روزگار افراد کے لیے کون قانون سازی کرے گا، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں 80 کی دہائی کا موقع ہم گنوا چکے ہیں اور اب دنیا پھر وہیں آکر کھڑی ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن کورونا وائرس بحران کا عارضی حل ہے، وزیراعظم

سینیٹ اجلاس میں تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان لیپ ٹاپ اور موبائل فون سے ڈیوٹی ہٹائیں، بینکوں کو خصوصی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نوجوانوں کے لیے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی خریداری کے لیے آسان اقساط پر قرضے دینے کی ہدایت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے چھوٹے دکانداروں کو آگے بڑھانا ہے تو کابینہ ان کے لیے بھی کچھ سوچے کیونکہ آج ہمارا چھوٹا دکاندار بہت پریشان ہے کہ وہ کیسے کاروبار چلائے۔

میاں عتیق شیخ نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ میرا ڈیجیٹل پاکستان کہاں ہے؟ اگر اس عالمی وبا میں وہ ڈیجیٹل پاکستان نظر نہیں آرہا ہے تو پھر کیا ہوگا۔

کورونا کا ٹیسٹ مفت کیا جائے، سراج الحق

علاوہ ازیں سینیٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ایک بستی کی مثال پیش کی ہے جسے اللہ نے نعمتوں سے نوازا تھا تاہم انہوں نے ناشکری کی جس کے بعد ان پر عذاب آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’رب کریم کی جانب سے ہم پر عذاب آیا ہے اور ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ عذاب ہم پر کیوں آیا، کائنات کا نظام عدل اور انصاف پر قائم ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یہ وبا 16ویں مرتبہ آئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وبا نے خوشحال علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا، مسلمان ہونے کے ناطے ساری انسانیت کے حوالے سے ہمیں نجات کا راستہ تلاش کرنا ہے اور دنیا کو یہ راستہ پیش کرنا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان

سراج الحق کا کہنا تھا کہ ’اللہ کی سنت ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو اس میں برے لوگوں کے ساتھ وہ مسلمان جو برائی کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وبا کی وجہ سے کچھ کمزوریاں سامنے آئی ہیں، پہلی بار ہمیں معلوم ہوا کہ 22 کروڑ عوام کے لیے صرف 13 سو وینٹی لیٹرز ہیں اور اس وبا کے دوران بھی ہماری قیادت ایک پیج پر نہیں آسکی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کہنے کو تو سب نے ماسک لگائے ہیں مگر اپنی زبان کو لگام نہیں دے سکے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اور چیز جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا بجٹ سوشل سیکٹر پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ انتظامی معاملات پر خرچ ہوتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ وہ 9 ہزار روپے کا کورونا کا ٹیسٹ کرائیں، ہمیں اس ٹیسٹ کو مفت کرنا چاہیے۔

سینیٹ میں چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگینڈا مسترد کرنے کی قرارداد منظور

کورونا وائرس سے متعلق منعقد کیے گئے اجلاس کے دوران ایوان بالا (سینیٹ) نے 'چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگینڈا' مسترد کرنے کی قرار داد منظور کی۔

مذکورہ قرارداد اجلاس میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

ایوان نے متفقہ طور پر اس قرارداد کو منظور کرتے ہوئے 'چین کے خلاف (اس) بے بنیاد پروپیگینڈے' کو مسترد کردیا کہ مبینہ طور پر وائرس کے بنانے میں اس کا کردار ہے۔

اس موقع پر انہوں نے پاکستان کی مدد اور ذاتی تحفظ کے سامان سمیت طبی امداد فراہم کرنے پر چین کا شکریہ بھی ادا کیا۔

اٹھارویں ترمیم کے خلاف ایک طویل عرصے سے سازشیں جاری ہیں، عثمان کاکڑ

پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے خلاف سازشیں طویل عرصے سے جاری ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت ’خوش نہیں ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنایا جارہا ہے‘ کیونکہ 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو مساوی حقوق دیے۔

سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بلوچستان کو ایک بھی وینٹی لیٹر فراہم نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ممکن ہے اسکول 6 سے 8 ماہ تک نہ کھلیں، وزیر تعلیم سندھ

انہوں نے این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر اطمینان بخش قرار دیا، انہوں نے کہا کہ صوبے میں ٹیسٹ کٹس کی کمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں صرف ایک لیبارٹری ہے، لوگوں کو اپنے ٹیسٹ کے نتائج حاصل کرنے کے لیے 15 دن انتظار کرنا پڑے گا‘۔

پاکستان میں وائرس کے کم واقعات کی وجہ حکومت کے اقدامات ہیں، محسن عزیز

پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ پاکستان میں وائرس کے کم واقعات کی وجہ حکومت کے اقدامات ہیں اور اس کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی وبائی امراض کے مقابلہ میں بے بس ہیں جبکہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس سے نمٹ رہا ہے اور میرا ماننا ہے کہ حکومت کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سینیٹ کا خصوصی اجلاس تجاویز پیش کرنے کے بجائے حکومت کی ’تذلیل‘ کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔

حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے ایل آر ایچ کے 100 سے زائد ڈاکٹرز وائرس سے متاثر ہوئے، روبینہ خالد

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 100 سے زیادہ ڈاکٹروں کو ’حکومت کی غفلت‘ کی وجہ سے کورونا وائرس ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ فرنٹ لائن ورکرز کو حفاظتی لباس جیسے ’ہتھیاروں‘ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں نے ڈاکٹرز کو ایک ہی حفاظتی لباس پہننے یا دوبارہ استعمال کرنے کی خبریں سنی ہیں، یہ ایک ممکنہ تباہی ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے، کیا یہ حکومت کی تیاری ہے؟‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر فرنٹ لائن ورکرز کی حفاظت کرے اور انہیں قومی ہیرو سمجھے۔

رحمٰن ملک کا غریب عوام کی مفت ٹیسٹنگ کیلئے سینیٹ قرارداد پر زور

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰٰن ملک نے سینیٹ سے بلا معاوضہ غریب عوام کے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک قرارداد پاس کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’غریب عوام کو ٹیسٹ کروانے کا اولین حق حاصل ہے‘۔

رحمٰن ملک نے ایک قرارداد کا ذکر کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان بین الاقوامی قرض دہندگان سے مزید قرضے نہیں لے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کی تعریف کے بارے میں حکومت کو واضح ہونا چاہیے۔

ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر جو حساب کتاب کیا گیا ہے اس کے مطابق پاکستان میں کم از کم 8 لاکھ کیسز ہیں۔ 

اجلاس بلانے کا مقصد ناکام ہوتا دکھائی رہا ہے، فیصل جاوید

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے فیصل جاوید نے کہا کہ اجلاس بلانے کا مقصد ناکام ہوتا دکھائی رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر ایوان کا اجلاس طلب کیا گیا تھا اور سارے پاکستانی ابھی تک منتظر ہیں کہ اس اجلاس میں کورونا وائرس پر بھی بحث ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر تمام امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی کچھ اراکین پارلیمنٹ نے بھی کورونا پر بات کی لیکن کوئی ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آئیں، لاک ڈاؤن کے فوائد و نقصانات سے متعلق بحث نہیں ہوئی، اجلاس بلانے کا مقصد ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں ارطغرل ڈرامے کی بات ہوئی، ہمارے ملک میں پہلے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر جو ڈرامے یا پروگرام آتے تھے وہ کچھ سکھا کر جاتے تھے کہ چوری، رشوت اور جھوٹ بولنا بری چیز ہے اس سے بچوں کی تربیت ہوتی تھی۔

فیصل جاوید نے کہا کہ بعد میں ہم اس مواد سے بہت دور چلے گئے بھارت کے ڈرامے اور گانے ہماری ٹیلی ویژنز اسکرینز کی زینت بنے تب کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، اب جب وزیراعظم عمران خان نے تجویز دی کہ اسلامی تاریخ پر کئی ممالک نے بہت زبردست کام کیا ہے اس پر اعتراض کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: بیرون ملک سے آئے پاکستانیوں کیلئے 48 گھنٹے قرنطینہ کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان نے بھی کام کیا ہے اور اس پر مزید کام کیا جائے گا جن ممالک نے اس پر کام کیا ہے وہ دیکھنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی تاریخ سے متعلق جان سکیں۔

فیصل جاوید نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پہلے دن سے تفصیلی تکنیکی بریفنگ کا اہتمام کیا اور وزرا نے آکر قوم کو تکنیکی اقدامات سے متعلق بریفنگ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس ملک میں رواں سال سے پہلے موجود تھا، کورونا نیا نہیں ہے ملک میں کرپشن کا کورونا پچھلے کئی سالوں سے موجود تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے عید کی شاپنگ کے لیے بازاروں میں رش سے متعلق کہا کہ لوگوں کو خود بھی احتیاط رکھنا چاہیے کہ جہاں حکومت احساس کرتے ہوئے اقدامات کررہی ہے تو عوام کو بھی لاپروائی نہیں کرنی چاہیے، لوگ اس وقت دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں۔

وفاقی حکومت ملک گیر صحت ایمرجنسی ڈیکلیئر کرے، مشاہد حسین سید

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ فیصل جاوید نے پی ٹی وی سے متعلق بات کی اس وقت میں وزیر اطلاعات تھا، ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیپو سلطان پر طویل پلے کیا، پھر جناح ٹو قائد پلے کیا، اس کے بعد ہم نے لائیو سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تھا اور ہم نے ٹاک شو کی بنیاد رکھی تھی، اس وقت پی ٹی وی منافع بخش ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی تاریخ، شناخت اور ورثہ وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے ہونا چاہیے اور میں سمجھتا ہو کہ ارطغرل بھارت کے ڈراموں سے کہیں اچھا اقدام ہے۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ کورونا وائرس کا بحران بہت بڑا ہے دنیا کا کوئی ملک یا ماہر حقیقت میں نہیں جانتا کہ کیا ہورہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے اور اس پر قابو کیسے پایا جائے؟ انہوں نے مزید کہا کہ صرف چند ایک ممالک نے ہی اس پر قابو پایا ہے جن میں چین شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں الزام تراشی نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایک بحران ہے اور اس میں قوم کو یکجا ہونا چاہیے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور طبی عملے اور اس سے جان کی بازی ہارنے والے ڈاکٹروں، فوجی اور پولیس اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا فنڈ میں عطیہ کیے گئے ایک روپے کو 5 گنا کرکے بیروزگار افراد کو دیں گے، وزیراعظم

انہوں نے لاک ڈاؤن سے قبل گزشتہ برس اگست سے بھارت کے کرفیو کا شکار مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ حکومت نے اس بحران کے دوران صرف اپنے پیغام رساں (وزرا) تبدیل کیے ہیں لیکن مسئلہ وہ نہیں ہیں بلکہ ان کا پیغام ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کا پیغام مبہم ہے یا واضح ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ سابق صحافی اور وزیر اطلاعات کی حیثیت سے میں حکومت کو مفت مشورہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ ہم ایک کشتی میں سوار ہیں کہ اس صورتحال میں شروع سے ایک ہی پیغام ہونا چاہیے کہ یہ بحران کسی ایک پارٹی، ایک لیڈر، ایک ادارے اور حکومت سے بڑا ہے، یہ عوام سے متعلق ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ ہر بحران ایک موقع ہوتا ہے، حکومت کو کچھ اقدامات کرنے چاہیئیں، وفاقی حکومت سے ملک گیر سطح پر صحت کی ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے پر زور دیا، کیونکہ یہ کورونا کا معاملہ جون سے دسمبر تک چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی سیز فائر کا اعلان کریں کہ ہمیں اس سال سیاست نہیں کرنی اور صحت کی ہنگامی صورتحال کو شامل کرنے کے لیے قومی سلامتی کی نئی وضاحت بیان کرے کیونکہ صحت اور تعلیم کو وہ ترجیح نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ حکومت اس وقت اُمید پر چل رہی ہے کہ انشااللہ سب ٹھیک ہوجائے گا اس وقت ڈیٹا سے مدد لینی چاہیے، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کانٹیکٹ ٹریسنگ کریں۔

حکومت نے تفتان کو کورونا وائرس کی نرسری بنادیا، کبیر شاہی

نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ حکومت ملک میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ اس لیے روکنے میں ناکام ہوگئی کیونکہ اس نے حکومت کے اپوزیشن کا کوئی بھی مشورہ نہیں سنا۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب چین میں وائرس پھیلنا شروع ہوا تو ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ جب ایران سے زائرین آئیں گے تو مشکلات ہوں گی لہذا اس حوالے سے تیاری کرلیں لیکن ہماری نہیں سنی گئی۔

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تفتان ایک چھوٹا سا یونین کونسل ہے جہاں کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں، حکومت نے وہاں ایک بڑی خیمہ بستی بنائی جس میں 10 ہزار زائرین کو رکھا گیا، ان میں سے اگر 500 افراد کو کورونا تھا تو ان سے 10 ہزار کو متاثر کروا کے پورے ملک میں پھیلادیا۔

کیبر شاہی نے کہا کہ حکومت نے تفتان کو کورونا وائرس کی نرسری بنادیا اس میں صوبائی حکومت کا قصور نہیں کیونکہ سرحدوں کو کنٹرول کرنا وفاق کا کام ہے۔

انہوں نے ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانے پر بھی زور دیا اور کہا کہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ ہی اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔

بابر اعوان کا پوسٹ کورونا پالیسی تشکیل دینے کا مطالبہ

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور و سینیٹر بابر اعوان نے کورونا وائرس سے متعلق پالیسی (پوسٹ کورونا پالیسی) تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دی جانے والی تمام تجاویز پر غور کرے گی۔

بابر اعوان نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ حکومت 18 ویں ترمیم کو الٹنا چاہتی ہے اور کہا کہ ‘پروپیگنڈا‘ بند کیا جانا چاہیے۔

کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کی توہین سے متعلق جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق کے الزامات کے جواب میں ثبوت طلب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ایسے لوگوں کا احتساب کرے گی۔

کورونا وائرس ملک کے لیے خطرہ ہے، سینیٹر عبدالقیوم

ان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ کورونا وائرس کا بحران نہ صرف ہمارے صحت کے نظام بلکہ ہمارے ملک کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وائرس سے تباہی بہت طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

انہوں نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس ایک چھپا ہوا دشمن ہے اور یہ ان ہتھیاروں سے لیس ہے جس کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔

کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی تعریف

سینیٹر نزہت صادق نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ماسک نہ پہننے پر لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے پورے ملک میں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دینے پر چین کا شکریہ بھی ادا کیا۔

موجودہ صورتحال میں تنقید برائے تنقید نقصان دہ ہے، محمد علی سیف

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر بیریسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ اس وقت جاری پارلیمانی اجلاس مؤثر نہیں کیونکہ اس صورتحال میں سیاست مددگار نہیں۔

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں تنقید برائے تنقید نقصان دہ ہے۔

ہر قوم کو آزمائشوں اور چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے لیکن جب ہم چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں تو صوبائیت اور مذہبی اختلافات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔

ضرورت پڑنے پر حقیقی لیڈرز ملک کی خاطر بھیک مانگتے ہیں، سینیٹر شہزاد وسیم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ حقیقی لیڈرز ملک کی خاطر بھیک مانگتے ہیں اگر مانگنی پڑے جیسا کہ صحت کے اس بحران کے دوران مالی ریلیف مانگا جارہا ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم کو بھیک مانگنے پر طنز کیے، آپ جانتے ہیں اور کس نے بھیک مانگی تھی، سرسید احمد خان نے مانگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حقیقی لیڈرز ملک کے لیے بھیگ مانگتے ہیں اور دیگر اپنی جیبیں بھرنے کے لیے مانگتے ہیں۔

بلوچستان میں کورونا مریضوں کیلئے کوئی سہولت نہیں، سردار شفیق ترین

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سردار شفیق ترین نے کہا کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے صحت کی کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے صوبے کو دیے گئے سامان کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کہا کہ اگر وبا پھیلی تو ہم اس سے نمٹنے کے اہل نہیں ہوں گے۔

شفیق ترین نے کہا کہ بلوچستان میں طبی ٹسیٹ کے لیے صرف ایک لیب ہے اور ہپستالوں میں وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔

صوبائیت کو فروغ نہیں دیا، آئینی حق مانگا ہے، سینیٹر گیان چند

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر گیان چند نے کہا کہ حکومت سندھ نے بروقت لاک ڈاؤن نافذ کیا اور وبا کے خلاف جنگ کی کوششوں میں ڈاکٹروں کو پی پی ایز فراہم کیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب سندھ نے وفاقی حکومت سے دیگر ضروریات کو پورا کرنے کا کہا تو ’انہوں نے تنقید کا سہارا لیا‘۔

گیان چند نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سندھ پر الزام لگایا کہ ہم صوبائیت کو فروغ دے رہے ہیں لیکن ’ہم نے خون دیا اور انہیں صوبائیت کی بو آ رہی ہے، ہم اپنا آئینی حق مانگ رہے ہیں، این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصہ ہے‘۔

ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ ہمارے بہادر سپاہی ہیں، سیمی ایزدی

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ 18 مئی کو خصوصی پرواز چین میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے باعث ووہان میں پھنسے 250 طلبہ کو وطن واپس لائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جب چین میں وبا پھیلی تھی تب بہت سے ممالک نے اپنے لوگوں کو واپس بلالیا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔

سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ ہمارے بہادر سپاہی ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق یکساں پالیسی بنائی جائے، سینیٹر غوث خان نیازی

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث خان نیازی نے ملک میں کورونا وائرس کے بحران سے متعلق یکساں پالیسی مرتب کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں لاک ڈاؤن کے نفاذ یا اسے ہٹائے جانے سے متعلق کوئی اعتراض نہیں ہم صرف یکساں پالیسی چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ کورونا وائرس کے اس مسئلے کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہیے۔

غوث خان نیازی نے کہا کہ کورونا وائرس سالوں تک رہے گا اور حکومت کی متضاد پالیسیاں خوف کی فضا پیدا کررہی ہیں۔

حکومت ایس او پیز پر عملدرآمد کو لازمی قرار دے، سینیٹر سجاد حسین طوری

ان کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ حکومت کو کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ماسک پہننے جیسے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عملدرآمد کو لازمی قرار دینا چاہیے۔

ایوان بالا میں اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ وائرس کب عروج پر پہنچے گا، ہمیں اس حوالے سے کچھ اندازہ نہیں تو ہم یہ منصوبہ بندی کیسے کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ان کے 2 بچے کورونا وائرس کا شکار

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہ ختم یونے والی صورتحال ہے، انہوں نے زور دیا کہ حکومت اس حوالے سے پالیسی سازی کے لیے اچھے مشوروں پر عمل کرے۔

ایوان بالا میں موجود اراکین کے اظہار خیال کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اجلاس ملتوی کردیا۔

خیال رہے کہ اپوزیشن کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کا پہلا اجلاس 12 مئی کی صبح طلب کیا گیا تھا۔

سینیٹ اجلاس سے متعلق ضابطے کے تحت اجلاس سے قبل تمام سینیٹرز کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا۔

پاکستان میں کورونا وبا سے 36 ہزار 788 افراد متاثر، اموات 791 ہوگئیں

بچوں میں کووڈ 19 سے ایک سنگین بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

لاہور میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے پر درجنوں دکانیں سیل