افریقہ میں ڈبلیو ایچ او کی ریجنل ڈائریکٹر متشیدیسو مویتی نے جمعرات کو ایک میڈیا بریفننگ ک ے دوران کہا 'ہم مڈغاسکر کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں'۔
عالمی ادارہ صحت کا یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجولینا نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے سی وی او کی حوصلہ افزائی نہ کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔
گزشتہ مہینے مڈغاسکر کے صدر نے باضابطہ طور پر اس ہربل مشروب کو پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس سے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے ساتھ مریضوں کا علاج ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارے کے ریجنل ڈائریکٹر نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں نے مڈغاسکر کی وزارت صحت سے بات کی ہے اور صدر کے ساتھ ایک ملاقات بھی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'ہم نے اس پراڈکٹ کے حوالے سے تحقیق میں تعاون کی پیشکش کی، ہم نے آگے بڑھنے کی راہ نکالنے کے لیے بھی بات چیت کی'۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک عالمی ادارے کے پاس اس مشروب کی افادیت کے حوالے سے کوئی دیٹا موجود نہیں جبکہ ڈبلیو ایچ او کے ٖڈائریکٹر جنرل نے بھی مڈغاسکر کے صدر سے بات کی ہے۔
متشیدیسو مویتی نے کہا 'ڈبلیو ایچ او کی جانب سے روایتی ادویات کے شعبے پر کام کیا جارہا ہے، ہم روایتی ادویات کو قومی طبی نظام کا حصہ بنانے کے لیے سہولیات کی فراہمی پر سخت محنت کی جارہی ہے'۔
اس مشوب کو مالاگاسی انسٹیٹوٹ آف اپلائیڈ ریسرچ نے تیار کیا تھا اور اب تک متعدد افریقی ممالک کو بھیجا جاچکا ہے۔
پیر کو بحر ہند کے ممالک کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کو کووڈ 19 کا ہربل علاج قرار نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
عالمی ادارے کی ڈائریکٹر نے کہا کہ افریقہ میں لوگ غذائی کمی کا شکار ہونے کے باعث کمزور مدافعتی نظام رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ وبائی امراض کے مقابلے میں کمزور ہوجاتے ہیں۔
ان کے بقول ' یہ ایک ہنگامی مسئلہ ہے کیونکہ افریقہ کے 20 کروڑ سے زائد افراد غذائی کمی کا شکار ہیں، کووڈ 19 کی وبا نے صورتحال کو زیادہ بدتر بنادیا ہے'۔
افریقہ میں اب تک 72 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ ڈھائی ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اس مشروب میں اہم ترین جز سویٹ وارم ووڈ ہے مگر یہ ابھی تک واضح نہیں کہ کووڈ اورگینک کو کیسے تیار کیا جاتا ہے جبکہ اسے تیار کرنے والے ادارے نے اب تک اس کی افادیت یا مضر اثرات کے مبارے میں کوئی ڈیٹا جاری نہیں کیا ہے۔
مگر گزشتہ ماہ نیشنل اکیڈمی آف میڈیسین آف میڈغاسکر نے اپنے بیان میں کہا تھا 'یہ ایسی دوا ہے جس کے بارے میں سائنسی شواہد تاحال سامنے نہیں آسکے، اور یہ لوگوں خصوصاً بچوں کی صھت کو نقصان پہنچا سکتی ہے'۔
مگر اس انتباہ کے باوجود دیگر افریقی رہنما اس مشروب میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں اور تنزانیہ کے صدر جان ماگوفل نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ ہم ایک طیارے کو بھیج کر اس دوا کو منگوائیں گے تاکہ ہماری عوام کو بھی اس سے فائدہ ہوسکے۔
جمہوریہ کانگو کے صدر ڈینس ساسو نگیوسو کا بھی اس مشروب کو 'اپنانے' کا منصوبہ ہے جس کا عندیہ حکومتی ترجمان کے ایک ٹوئٹ سے ملا۔
دوسری جانب ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے نتیجے میں ادویات کے خلاف ملیریا میں مزاحمت پیدا ہوسکتی ہے جس سے وہ دوائیں بے اثر ہوسکتی ہیں۔