نقطہ نظر

خیبر پختونخوا کی روایتی عید

لوگ آسمان پر چاند نہیں بلکہ آگ کے اس شعلے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے عید کی نوید ہوا کرتا تھا۔

تہوار انسانی زندگی کا اہم پہلو رہے ہیں۔ خوشی کے لمحات کو اجتماعی انداز میں منانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ عید عالمِ اسلام کا وہ تہوار ہے جسے رمضان المبارک کے روزے رکھنے پر تحفے کے طور پر عطا کیا گیا۔

مگر کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث جہاں عام معمولاتِ زندگی میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں وہیں غمی خوشی کے مواقع پر بھی گرہن لگ گیا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری اس سال کی میٹھی عید میں وبائی مرض کی کھٹاس بھی شامل ہوگئی ہے۔

مگر تہوار کو دستیاب حالات میں بھرپور انداز میں منایا جارہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں جہاں مسلمان آبادیاں بستی ہیں وہاں وہاں عید کا تہوار مختلف ثقافتوں کے رنگوں میں رنگا نظر آتا۔ مثلاً اگر برِصغیر میں عید کا خاص پکوان شیر خرما پک رہا ہے تو صومالیہ میں مہمانوں کو کمبابور روٹی پیش کی جارہی ہے۔

اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں لوگ اپنے اپنے طریقوں سے عید مناتے ہیں۔ اب چونکہ ہم ٹھہرے مالاکنڈ کے باسی سو اس تحریر میں ہم خیبر پختونخوا اور خصوصاً ملاکنڈ ڈویژن کی ان روایتوں کا ذکر کریں گے جو ہماری 30 سے 35 سالہ زندگی میں زیرِ مشاہدہ رہیں۔

کچھ پرانی روایات تو معدوم ہوچکی ہیں اور کچھ دم توڑتی جارہی ہیں۔ مالاکنڈ کے دیہی علاقوں کے علاوہ میری چند عیدیں شہرِ کراچی میں بھی گزری ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں تو عید بازاروں میں خریداری اور خصوصاً چاند رات کے ہلے گلے اور نمازِ عید کے بعد پورا دن سوکر گزارنے کا نام ہے لیکن مالاکنڈ ڈویژن کے دیہی علاقوں کی روایات یکسر مختلف اور نرالی ہیں۔

جس طرح مالاکنڈ کے لوگ عید سو کر گزارنے کی بات سُن کر حیران ہوں گے اسی طرح ملک کے مختلف شہری مراکز میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان دیہی علاقوں کی روایات یقیناً خوشگوار حیرت کا باعث بنیں گی۔

تو چلیے ان دُور دراز علاقوں میں عید کی گہما گہمی اور روایات کے بارے میں جانتے ہیں۔

عید سے قبل خواتین کی مصروفیات

جیسا کہ ہم نے اوپر بھی بیان کیا کہ عید سے جڑی کچھ روایتیں اب دم توڑ رہی ہیں، اس کی وجہ زندگی میں جدیدیت کا دخل، ٹیکنالوجی کا اثر، بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور شہروں تک آسان رسائی اور معاشی استحکام ہوسکتی ہے۔

شاید اسی لیے کچے مکانوں کو گارے کی مٹی لپنے کا چلن اب مرتا جا رہا ہے۔ پہلے ان علاقوں میں بزرگ خواتین کی ٹولیوں کی ٹولیاں ماہِ صیام کے آغاز سے پہلے کچے گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے گاؤں کے باہر سے ایک مخصوص قسم کی مٹی سے بھری تغاریاں سر پر رکھ کر لایا کرتی تھیں اور پھر مٹی کو جمع کرنے کے بعد عید سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے خواتیں گھروں کے فرش اور دیواروں پر لپا کرتی تھیں اور مٹی سوکھنے کے بعد اس پر چونے کے طور پر ایک اور سفید مائل رنگ کی تہہ لگایا کرتی تھیں۔ مگر گاؤں دیہات میں اب زیادہ تر مکانات پکے ہونے کی وجہ سے عید سے قبل خواتین کی وہ ٹولیاں زیادہ نظر نہیں آتی ہیں۔

جہاں بڑی عمر کی خواتین مٹی لایا کرتی تھیں وہیں لڑکیاں گھر کے کام کاج کے ساتھ عید سے قبل دوپٹوں، بیڈ شیٹس اور تکیوں کے غلافوں پر رنگ برنگی دیدہ زیب کڑھائی کیا کرتی تھیں لیکن اب شہروں میں ہر قسم کے ڈیزائن کے تیار جوڑے، دوپٹے اور غلاف باآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے دستکاری کا یہ رواج بھی قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ عید سے کوئی 8 سے 10 دن پہلے لڑکیوں کی ایک مصروفیت یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ پورے گاؤں سے چھوٹی بڑی لڑکیاں رات میں اور عموماً نمازِ عشاء کے بعد ایک گھر کی چھت پر اکٹھی ہوکر گول دائرہ بنا کر بیٹھ جایا کرتیں اور عید کی آمد کی خوشی میں دوکڑی بجا کر گیت گایا کرتی تھیں۔

رات کے سناٹے میں یہ آواز پورے گاؤں میں گونجا کرتی تھی۔ گیت گانے کا یہ سلسلہ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتا اور پھر ہر ایک لڑکی اپنے گھر کی راہ لیتی۔

مگر اب اس روایت کو صرف 10 سے 12 سالہ بچیاں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بڑی عمر کی لڑکیوں نے شاید موبائل فون ویڈیوز میں عکس بند ہونے کے ڈر سے کسی ایک مکان کی چھت پر جانا بند کردیا ہے۔

دوسری وجہ مکانات کا پکا ہونا بھی ہے کیونکہ جب مکانات کچے ہوا کرتے تھے تو گھر میں داخل ہوئے بغیر ہی باآسانی گھر کی چھت پر پہنچا جاسکتا تھا لیکن پکے مکانات کی وجہ سے اب گھر میں داخل ہوئے بغیر چھتوں پر جانا مشکل ہوگیا ہے۔ شاید کچھ لڑکیاں کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہونے کے بعد چھت پر جانا معیوب سمجھتی ہیں۔

ایک اور خوشبودار روایت بھی ہوا کرتی تھی۔ دراصل عید سے قبل پورے گاؤں میں کیک اور کاکوڑے (پراٹھے کی ایک قسم) کی روایتی سوغات بنانے کی خوشبو پھیل جایا کرتی تھی۔ عید سے دو چار دن پہلے لوگ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ہونے والی بہو کو عید کی خوشیوں میں شامل رکھنے کے لیے یہ خصوصی سوغات بنا کر بیھجا کرتے تھے۔ اس سوغات کو بھیجنے کے لیے مخصوص ٹوکری کا استعمال کیا جاتا تھا جس کے اوپر ایک خوبصورتی سے کڑھی ہوئی چادر باندھی جاتی تھی۔ جب کسی کے گھر میں سوغات کی ٹوکری آتی تو اس گھر کے افراد اسے پڑوسیوں اور قریبی رشتہ داروں میں بھی تقسیم کرتے تھے اور ٹوکری لانے والوں کو نقد روپے اور بعض اوقات کچھ تحائف بھی دیے جاتے تھے۔

اپنوں کو عید کی خوشیوں میں یاد رکھنے کی یہ روایت آج بھی برقرار ہے لیکن اب روایتی سوغات کے بجائے بیکریوں سے تیار شدہ سامان بیھجا جاتا ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے چاروں اطراف روایتی سوغات کی خوشبوئیں ختم ہوگئی ہیں اور مخصوص ٹوکری اور مخصوص لوگوں کی بجائے اب لوگ خود ہی پہنچا دیتے ہیں۔

عید سے قبل ایک بچی روایتی کیک پڑوسیوں کو دینے جا رہی ہے—تصویر بشکریہ نصیب یار چغرزئی

عید سے قبل مردوں کی مصروفیات

ان دیہی علاقوں میں باقاعدہ ہموار میدان تو موجود نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے کوئی گراؤنڈ بنائے گئے ہیں لیکن نوجوان اپنے مدد اپ کے تحت رمضان المبارک میں عید کے ٹورنامنٹس کھیلنے کے لیے زمین ہموار کرنے کے بعد اس پر پچ بناتے ہیں اور گراونڈ کے اطراف میں چونا لگا کر باؤنڈری لائن بھی بنائی جاتی ہے۔

ٹورنامنٹس کے منتظمین دیگر گاؤں سے تعلق رکھنے والی کرکٹ ٹیموں کو خطوط لکھتے ہیں اور ان کو اپنے ٹورنامنٹ میں مدعو کرنے کے ساتھ ٹورنامنٹ کی فیس اور قواعد و ضوابط سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ خط میں دنیا جہان کے قوانین لکھے جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عمل کسی ایک پر بھی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ہر گاؤں میں لڑکے ان ٹورنامنٹس کی تیاری کے لیے پریکٹس شروع کرتے ہیں۔ یہ پریکٹس نمازِ ظہر کے بعد شروع ہوجاتی ہے اور پھر کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔

عموماً نوجوان گاؤں کے بڑوں سے کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے نیا بیٹ اور دیگر ضروری سامان کے لیے چندہ جمع کرتے ہیں۔ ٹورنامنٹس کی تیاریوں کے علاوہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنا اور جانوروں کے لیے چارہ ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری بھی انہی نوجوانوں کو دی جاتی ہے۔ عید کے دن اور اگلے 8 سے 10 دنوں تک آرام سے کرکٹ کھیلنے اور عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان نوجوانوں کو عام دنوں سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ عید سے قبل چند راتیں کرکٹ ٹیم میں کھلاڑیوں کو منتخب کرنے اور ٹورنامنٹ کے لیے منصوبہ بندی میں گزر جاتی ہیں اور تقریباً ہر حجرے، بیٹھک اور دکان میں کرکٹ ہی بحث و مباحثہ کا موضوع بنا رہتا ہے۔

چاند کی اطلاع دینے سے متعلق روایت

رویت ہلال کمیٹی تو عصر اور مغرب کے درمیان چاند دیکھنے کے لیے مخصوص جگہوں پر آسمان کی طرف دُوربین کا رخ کیے ہوتی ہے لیکن گزرے وقتوں میں ان دیہی علاقوں کے لوگ افطار کے بعد سے لے کر رات دیر تک آسمان کے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے اس انتظار میں ہوتے تھے کہ کہیں سے عید کی نوید مل جائے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا اتنی رات کو یہ لوگ آسمان سے چاند کی توقع کیوں کرتے ہیں حالانکہ اس وقت تو چاند دیکھنا بھی محال ہوتا ہے، اور آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ اصل میں گاؤں والے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر چاند نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ آسمان میں نمودار ہونے والے آگ کے اس شعلے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے عید کی نوید ہوا کرتا تھا۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اب آپ اس شعلے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ بھلا یہ کیا چیز ہے؟

چلیے ہم آپ کی مدد کردیتے ہیں۔ یہ روایت کچھ یوں تھی کہ جب اطلاع کی رسائی کے ذرائع بہت محدود ہوا کرتے تھے تو اس وقت اگر کسی ایک گاؤں میں چاند نظر آجاتا تھا یا سرکار کی طرف سے چاند دیکھنے کی اطلاع ملتی تھی تو اس گاؤں کے لوگ روشنی والے مخصوص کارتوس فائر کرتے تھے جس کی مدد سے آسمان میں آگ کا ایک شعلہ بن جاتا تھا اور دُور دراز علاقوں میں فائر کی آواز تو نہیں پہنچتی تھی لیکن لوگ اس شعلے کو دیکھ کر گاؤں کی مسجد سے صبح عید ہونے کا اعلان کردیتے تھے اور دوسرے علاقوں تک خبر پہنچانے کے لیے وہاں سے بھی مخصوص کارتوس فائر کیے جاتے تھے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی نے پیغام رسانی کو برق رفتاری بخش دی ہے سو اب لوگ آسمان کی طرف دیکھنے کے بجائے موبائل اسکرینوں پر نظریں گاڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔

عید کے دن غربا کو یاد رکھنے کی روایت

گاؤں دیہات میں دودھ دہی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لوگ بھینسیں پالتے ہیں لیکن بھینس پالنے میں کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں اور اکثر لوگ انہیں پالنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے گاؤں کے صاحبِ حیثیت لوگ عید کے دن نمازِ فجر کے بعد معاشی طور پر کمزور لوگوں کے گھروں میں اپنے بچوں کے ہاتھوں دودھ اور دہی سے بھرے برتن بھجواتے ہیں اور یہ روایت کسی حد تک آج بھی برقرار ہے۔

عید کے دن روایتی کھانوں میں سادہ چاول، دودھ، دہی، دیسی گھی، مرغی کے گوشت کا شوربہ اور فرائی چکن شامل ہوتا تھا لیکن اب اس میں بھی تبدیلیاں آرہی ہے لیکن صاحبِ حیثیت لوگ غریب لوگوں کو آج بھی یاد رکھتے ہیں اور نمازِ عید کے بعد غریبوں کے گھر تیار کھانے بھجواتے ہیں۔ اب تو پولٹری فارمز کی وجہ سے ان دیہی علاقوں میں مرغیاں باآسانی دستیاب ہیں مگر پہلے ایسا نہیں تھا اور لوگ عید کے لیے گھر پر مرغیوں پالا کرتے تھے تاکہ عید کے دن ذبح کرکے اس کا شوربہ بنایا جائے۔

نماز

نمازِ عید کے اجتماع کے لیے دیہات کے مضافاتی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی گاؤں کی مساجد کا رخ کرتی ہے۔

نمازِ عید کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کھانے کا اہتمام کیا ہوا ہوتا ہے اور خصوصاً مضافات سے آئے ہوئے لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس کے بعد عید ملنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

نمازِ عید کے اجتماع کے لیے دیہات کے مضافاتی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی گاؤں کی مساجد کا رخ کرتی ہے—تصاویر بشکریہ اسرار

نماز پڑھنے کے بعد اکثر لوگ تعزیت کے لیے ان گھروں کا رخ کرتے ہیں جہاں کسی کی فوتگی کے بعد پہلی عید ہوتی ہے، اس کے علاوہ لوگ بیماروں کی عیادت کے لیے بھی ان کے گھر پہنچتے ہیں۔

گاؤں کے بڑے اکثر اپنے حجروں اور بیٹھکوں میں موجود ہوتے ہیں اور چھوٹی بڑی عمر کے افراد ان سے عید ملنے جاتے ہیں۔ حجروں اور بیٹھکوں میں بھی کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

نمازِ عید کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کھانے کا اہتمام کیا ہوا ہوتا ہے—تصاویر بشکریہ عرفان خان

عید کے دن روایتی گیتوں کی سریلی آواز بھی مدھم ہوتی جا رہی ہے

عید سے قبل ہر طرف پھیلی روایتی سوغات کی خوشبوؤں کی طرح گاؤں کے ایک کونے سے کانوں میں رس گھولتے گیتوں کی آواز بھی مدھم ہونے لگی ہے۔

عید کے پہلے دن سے گھروں کی کچھ خواتین اور بچیاں گاؤں سے باہر ایک مخصوص مقام پر عید کی خوشیاں منانے جایا کرتی تھیں، خواتین ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ کر دوکڑی بجاتیں اور روایتی گیت گاتیں یہ سلسلہ تقریباً عید کے بعد بھی ایک سے ڈیڑھ ہفتے تک جاری رہتا تھا لیکن آج اس میں بھی کمی آگئی ہے اور بڑی عمر کی خواتین اور لڑکیوں کے بجائے اب صرف چھوٹی عمر کی بچیاں اس روایت میں حصہ لیتی ہیں، اس کی ایک وجہ سڑکوں کا بن جانا ہے کیونکہ اب اس گاؤں کے علاوہ دیگر علاقوں کے مردوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دیہات کی فضائیں ان سریلے روایتی گیتوں سے محروم ہوتی جارہی ہیں اور اب صرف چھوٹی عمر کی بچیاں ہی گیت گاتی ہیں۔

عید کے دن ٹورنامنٹس کا سلسلہ

عید کے دن مختلف مقامات پر کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد بھی ہوتا ہے، کہیں کہیں ایک ٹورنامنٹ میں 20 یا اس سے زائد ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور ٹورنامنٹ کم از کم بھی عید کے 10 سے 12 دن تک جاری رہتا ہے۔ مقامی افراد پورا پورا دن کرکٹ گراؤنڈ میں گزار دیتے ہیں۔ دن میں 8 سے 10 مقابلے ہوتے ہیں اور ٹیموں کی جیت ہار پر ہر جگہ بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگلے میچ کے لیے تیاریوں کی منصوبہ بندی بھی جاری رہتی ہے، گاؤں کے بزرگ افراد کے لیے بھی یہ میچ دلچسپی کا باعث بنتے ہیں اور وہ بطور تماشائی میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔

کرکٹ گراؤنڈ جہاں عید کے کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوتے ہیں—تصاویر رشید خان

کسی ایک کا دکھ اور غم سب کا دکھ اور غم ہونے کی روایت

ایک روایت یہ بھی تھی کہ اگر عید سے چند دن قبل گاؤں میں کسی کی میت ہوجاتی تھی یا کوئی حادثہ پیش آتا تو تقریباً پورا گاؤں سادگی سے عید منایا کرتا تھا اور اس گھر کے دکھ اور پریشانی کو پورا گاؤں اپنا دکھ اور پریشانی سمجھتا لیکن اب یہ روایت ختم ہورہی ہے اور کچھ دیہات میں اس روایت کو صرف پڑوسیوں اور قریبی رشتہ داروں تک محدود کرلیا گیا ہے لیکن بعض گاؤں میں تو پڑوسی کا دکھ درد بھی پرایا سمجھا جاتا ہے۔

دیگر روایات کی معدومیت یا ان میں تبدیلی کا اتنا زیادہ دکھ نہیں ہوتا جتنا کہ اس روایت کے دم توڑنے کا ہوتا ہے کیونکہ یہ انسانیت کے جذبات کو زندہ رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

آئیے عید کے دن ان تمام روایات کو زندہ کرنے کا عہد کریں جو انسانیت کی خدمت کا باعث بنتی ہیں۔

امیر محمد خان

امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔