پاکستان

پاکستان پینل کوڈ سے 'بغاوت' کی شق ختم کرنے کا بل سینیٹ میں پیش

سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے بل پیش کیا، حکومتی سینیٹر کی مخالفت کے باوجود بل کو قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے پاکستان پینل کوڈ سے بغاوت کی شق کے خاتمے کا بل ایوان بالا میں پیش کردیا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔

پیر کو سینیٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے وزرا، اراکین اسمبلی، سینیٹرز، ڈاکٹرز سمیت تمام افراد کے لیے مغفرت کی دعا کی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں بھی آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز کثرت رائے سے منظور

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دستور ترمیمی بل 2020 آرٹیکل 25-بی کی شمولیت کا بل پیش کیا۔

اس بل میں کہا گیا کہ جس طرح آرٹیکل 25-اے میں تعلیم دینا ریاست کی ذمے داری ہے اور ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے، بالکل اسی طرح صحت بھی انتہائی اہم چیز ہے لہٰذا اس میں 25-بی کو شامل کر کے صحت کو بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے۔

اس بل کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی اور بل کو متعارف کرانے کی منظوری دے دی گئی اور اسے متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔

سینیٹر سیمی ایزدی نے کام کی جگہوں پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کی فراہمی کا بل پیش کیا تاکہ خواتین کو یکساں مواقع میسر آ سکیں اور اس بل کو بھی متعارف کرانے کی اجازت دے دی گئی جس کے بعد اسے بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن سینیٹ اجلاس فروری کے اختتام تک جاری رکھنے پر متفق

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سینئر سیاستدان میاں رضا ربانی نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124-اے ختم کرنے کا بل پیش کیا جو بغاوت سے متعلق ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ یہ ان دفعات میں سے ہے جو ہمیں ورثے میں ملیں اور یہ اس وقت کی برطانوی سامراج کی حکومت نے اسے متعارف کرایا تھا تاکہ وہ عوام پر اپنا کنٹرول رکھ سکیں۔

پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 124-اے کے مطابق جو کوئی بھی شخص زبانی یا تحریر کے ذریعے یا دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے یا بصورت دیگر وفاق یا صوبائی حکومت کو جو بذریعہ قانون قائم کی گئی ہو، معرض نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کی کوشش کرے یا اس سے انحراف کرے یا اس سے انحراف اطاعت پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا ایسی سزائے قید دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

رضا ربانی نے کہا کہ اس دفعہ کو ماضی میں بھی اور ابھی بھی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسی طرح یہ دفعہ لاہور میں جو طالبعلم نکلے تھے ان کے خلاف بھی اس کا استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کو سیاسی رائے کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کے لیے احترام کو آپ قانون کے ذریعے سے عملدرآمد نہیں کرا سکتے بلکہ اس کا تعلق ریاست کی فرد کے لیے آزادی اور انداز حکمرانی سے ہے۔

انہوں نے درخواست کی کہ اس دفعہ کے خاتمے کا بل قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی احمد خان نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کے لیے جو وجوہات بتائی گئی ہیں وہ بالکل درست ہیں کہ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مکمل آزادی اظہار رائے ہو تو اگر ہم قانون سے یہ دفعہ ہٹا دیں تو اس سے جس کا جو بس کرے گا وہ وہی کرے گا۔

علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون یقیناً ماضی میں سیاستدانوں کے خلاف استعمال ہوا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے تقدس اور سالمیت کو یقینی بنانے والی شق کو ہی ہٹا دیں بلکہ اس کے بجائے ہمیں اس عمل کو بہتر بنانا چاہیے اور اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے لہٰذا وزارت اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

اس پر رضا ربانی نے کہا کہ میں فاضل وزیر کے اعتراضات سے اختلاف کروں گا اور اپنے بل کے دفاع میں پاکستان پینل کوڈ 123، 125، 126، 127 کا حوالہ دیا لہٰذا حکومتی اعترضات کے تحفظ کے لیے قوانین پہلے سے موجود ہیں اور اس کا صرف اور صرف تعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہے۔

بحث کے بعد اس بل کو متعارف کراتے ہوئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔

رضا ربانی نے اس کے بعد آئین پاکستان کے سیکشن 89 میں ترمیم کا بل پیش کیا جو صدر کو آرڈیننس کے نفاذ کا حق دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا حق پارلیمان کا ہے اور یہ محدود وقت اور محدود مقاصد کے لیے یہ حق آئین نے صدر کو دیا ہے کہ وہ آرڈیننس کو نافذ العمل کر سکے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کئی نئے قوانین آرڈیننس کے ذریعے نافذ کر دیے گئے جس سے پتہ نہیں چلا کہ کونسا نیا قانون آیا جب پارلیمنٹ سیشن میں نہیں تھی جبکہ ایوان اور رکن پارلیمان کو عدم اتفاق اور نامنظوری کے حق سے بھی محروم کردیا گیا۔

اس کے بعد حکومتی سینیٹر فیصل جاوید خان نے پاکستان ماحولیاتی تحفظ ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا جس کی وزیر مملکت زرتاج گل نے مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے 'مفاد عامہ' کے 8 آرڈیننس نافذ کردیے

بل میں کہا گیا کہ کوئی شخص پانی یا زمین پر کچرا نہیں پھینکے گا اور کچرا پھینکے والے شخص کو دو ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں مزید کہا گیا کہ جرمانہ نہ ادا کرنے پر پانچ ہزار روپے روزانہ جرمانہ عائد ہو گا۔

بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جبکہ سینیٹر فیصل جاوید کا موٹر وہیکل آرڈینس میں ترمیم کا بل بھی پیش کیا گیا اور اسے بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

مذکورہ بل میں کہا گیا کہ ڈرائیور پابند ہو گا کہ وہ ایمبولنس اور فائربریگیڈ کو راستہ دے گا اور اگر ڈرائیور ایمبولینس اور فائربریگیڈ کو راستہ نہیں دے گا تو اسے تین ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا کہ اگر کوئی شخص ایمبولنس اور فائیر بریگیڈ کا سائرن اور لائٹس بغیر ضرورت استعمال کرے گا اسے پانچ ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ تک قید ہو گی۔