پاکستان

پشاور: پولیس کا شہری پر برہنہ کرکے تشدد، ملوث اہلکار گرفتار

وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیا اور آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی۔
|

پشاور پولیس کی جانب سے تھانے کے اندر ایک شہری کو برہنہ کرکے تشدد اور بدزبانی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کے بعد اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) سمیت 3 اہلکاروں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔

پولیس نے واقعے کی تصدیق کی کہ ایک ہفتہ قبل پشاور کے ایک تھانے میں شہری کو برہنہ کرکے تشدد کیا گیا اور تضحیک آمیز زبان بھی استعمال کی گئی۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو منظر عام پر آتے ہی وائر ہوگئی جس میں دکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار ایک شہری پر تشدد کررہے ہیں، جس کی شناخت 30 سالہ ردیع اللہ عرف عماری کے نام سے ہوئی جو افغانستان کا شہری ہے۔

مزید پڑھیں:پشاور: پولیس کی حراست میں ایک برس کے دوران 4 ملزمان ہلاک

پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والا شہری تہکل میں رہائش پذیر ہے اور ان پر تشدد کی ویڈیو بھی تہکل پولیس اسٹیشن میں بنائی گئی۔

پولیس نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد واقعے میں ملوث اے ایس آئی سمیت دیگر اہلکاروں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی۔

وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا (کے پی) محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیا اور آئی جی رپورٹ طلب کرلی۔

انسپکٹر جنرل کے پی ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے تہکل پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سمیت دیگر اہلکاروں کو معطل کردیا۔

آئی جی نے چیف کیپٹل پولیس (سی سی پی او) کو ویڈیو کی تحقیقات کرکے رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔

بعدازاں مشیر اطلاعات اجمل وزیر اور سی سی پی او پشاور محمد علی گنڈاپور نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے اے آئی جی کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے، جس میں ڈی آئی جی اور سی سی پی او رکن ہوں گے۔

اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں گی کیونکہ سزا و جزا کا قانون سب کے لیے برابر ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اصلاحات ہماری ترجیح ہے اور اس واقعے میں ایس ایچ او سمیت چار اہلکار ملوث ہیں، جن کے خلاف ایف آئی آر درج کردی گئی۔

مشیر اطلاعات کا کہناتھا کہ اس وقت تین اہلکار گرفتار ہیں تاہم تفتیش میں ایس ایس پی پشاور تک کے افسران کو شامل کیا جائے گا اور رپورٹ کل پیش کی جائے گی۔

اجمل وزیر نے کہا کہ معاملے کو وزیراعلی خود دیکھ رہے ہیں، یہ واقعہ درندگی ہے اور اس میں ملوث لوگوں کو رعایت نہیں ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں:پشاور: پولیس چیک پوسٹ کے قریب دھماکا، 10 افراد زخمی

خیال رہے کہ دسمبر 2019 میں پشاور پولیس نے زیرحراست ملزمان کی ہلاکتوں کے واقعات میں اضافے کے بعد مقامی تھانوں کے حوالات میں کلوز سکرٹ ٹیلی وژن (سی سی ٹی وی) کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور زندگی بچانے والی ادویات فراہم کرنے کے علاوہ عملے کو ملزمان کی جان بچانے کے لیے تربیت بھی دی تھی۔

پولیس عہدیداروں کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ٹاؤن، آغا میر جانی، ہشت نگری اور خان رازق شہید تھانوں کے لاک اپس میں زیر حراست ملزمان کی موت کی اطلاع ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک اپ کی ویڈیو نگرانی، زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی اور تھانوں کے ملازمین کی تربیت کا مقصد زیر حراست ملزمان کی ہلاکتوں کو روکنا تھا۔

پولیس عہدیدار نے بتایا تھا کہ تھانوں کے کلرک کے لیے لاک اپ میں ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لیے اورینٹیشن سیشنز منعقد کیے گئے جبکہ تھانوں کے اندر نمایاں مقامات پر ہیلتھ کیئر ایمرجنسی نمبر آویزاں کیے گئے۔

ایک ہزار یورپی قانون سازوں کا اسرائیل سے فلسطینی علاقوں کو ضم نہ کرنے کا مطالبہ

بیرون ملک جانے والی سوڈانی خواتین کا ایئرپورٹ پر وزن کرنے کا حکم

پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ایک بار پھر سرپلس ہوگیا