نقطہ نظر

پی ٹی آئی کے پیش کردہ بجٹ کا تجزیہ

حکومت نے بجٹ کو پاکستانی کرنسی میں پیش کیا ہے۔ مگر مختص شدہ رقم کو ڈالر میں منتقل کرکے بجٹ میں حقیقی توسیع جانچی جاسکتی ہے

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے قومی اسمبلی میں چوتھا فنانس بل پیش کردیا ہے۔ حکومت کے قیام کے بعد پہلے سال 2 ضمنی فنانس بل منظور کرائے گئے تھے مگر 12 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ مکمل طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کا تیار کردہ دوسرا بجٹ ہے۔

جدید جمہوری سیاسی نظام میں بجٹ بھی ایک سیاسی دستاویز ہوتی ہے۔ اس بجٹ کے ذریعے سیاسی گروہ یا سیاسی اتحاد اپنے منشور کے مطابق ریاستی وسائل اور آمدنی کو مختص کرتا ہے۔

پی ٹی آئی کے اس دوسرے بجٹ کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا پیش کردہ میزانیہ ہے۔ اس بجٹ میں وسائل کے استعمال اور وسائل کے پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی واضح سمت نظر نہیں آرہی ہے جس کو انگریزی میں Directionless کہا جاتا ہے۔ یہ بجٹ بے سمت کیوں ہے اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس بجٹ میں وسائل کی تقسیم اور انہیں تفویض کرنے کی کوئی بھی ایک سمت نظر نہیں آرہی ہے اور خود بجٹ بنانے والے بھی اس میزانیے میں رکھے گئے اہداف کے حوالے سے پُراعتماد دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

بجٹ کا سکڑتا حجم

پاکستان تحریک انصاف نے آئندہ مالی سال 21ء-2020ء کے لیے 7 ہزار 248 ارب روپے کا میزانیہ پیش کیا ہے جبکہ رواں مالی سال جو 30 جون کو ختم ہورہا ہے اس کے لیے بجٹ کا تخمینہ 7 ہزار 260 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ اس طرح آئندہ مالی سال کا بجٹ کا تخمینہ گزشتہ مالی سال کے تخمینے سے تقریباً 12 ارب روپے کم ہے۔ رواں مالی سال کا نظر ثانی شدہ بجٹ 6 ہزار 130 ارب روپے ہے۔ اس طرح اصل تخمینے سے بجٹ کا حجم ایک ہزار 129 ارب روپے کم رہا۔

اپنے 20 سالہ صحافتی کریئر کے دوران میں نے تقریباً ہر سال ہی وفاقی اور صوبائی بجٹ کور کیے ہیں۔ مگر ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بجٹ کے حجم میں حقیقی طور پر کمی ہوئی ہے۔ اس بجٹ میں اگر 9 فیصد افراطِ زر کو بھی شامل کرلیا جائے تو حقیقی حجم مزید کم ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ بجٹ کسی طور پر بھی معیشت میں توسیع پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جبکہ گزشتہ 2 سال سے معیشت مسلسل سکڑ ہی رہی ہے۔

حکومت نے بجٹ کو پاکستانی کرنسی میں پیش کیا ہے۔ مگر مختص شدہ رقم کو ڈالر میں منتقل کرکے بجٹ میں حقیقی توسیع جانچی جاسکتی ہے۔ جس وقت بجٹ پیش کیا جا رہا تھا اس وقت ایک ڈالر 164.58روپے کا تھا۔ اگر بجٹ کے مجموعی حجم کو روپے کی شرح مبادلہ سے تقسیم کیا جائے تو بجٹ کا حجم 44 ارب 4 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔ اگر یہی فارمولہ 20ء-2019ء کے میزانیے پر استعمال کیا جائے تو 11جون 2019ء کو جب بجٹ پیش ہوا تھا تب ایک ڈالر 150روپے میں دستیاب تھا اس طرح بجٹ کا حجم ڈالر میں 48 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد تھا۔ یعنی آئندہ مالی سال کا بجٹ موجودہ مالی سال کے پیش کردہ تخمینے سے تقریباً 4 ارب ڈالر کم ہے۔

بجٹ میں رواں مالی سال شرح نمو کو (جو منفی اعشاریہ 4 فیصد ہے) آئندہ مالی سال کے لیے 2.1 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مالی سال 21ء-2020ء میں بمشکل ایک فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ اس کے علاوہ جاری کھاتوں کے خسارے کا ہدف 4.4 فیصد، قیمتوں میں اضافے کی شرح یا انفلیشن کا ہدف 9.1 فیصد سے گھٹا کر 6.5 فیصد رکھا گیا ہے۔

ٹیکس اہداف اور معاشی ٹیم میں اعتماد کا فقدان

مالی سال 20ء-2019ء کا بجٹ ٹیکس وصولی کا بجٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایف بی آر سے محصولات کا تخمینہ 5 ہزار 555 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ لیکن ٹیکس وصولی کے سخت اقدامات کی وجہ سے کاروباری لین دین میں نمایاں کمی دیکھی گئی جس کی وجہ سے ٹیکس کا ہدف حاصل نہ ہوسکا اور پھر کورونا کے پھیلاؤ سے قبل ہی ٹیکس ہدف کم کرکے 4 ہزار 17 ارب روپے کردیا گیا تھا جو ہدف سے ایک ہزار 538 ارب روپے کم ہے۔ ہدف میں اس کمی کے باوجود بھی وفاقی حکومت نے کورونا اور معیشت کے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر ٹیکس وصولی کا ہدف مزید کم کرکے 3 ہزار 908 ارب روپے کردیا۔

مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں مشکلات کے باوجود ٹیکس وصولی میں 17فیصد جبکہ ان لینڈ ریونیو کی وصولی میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کی معاشی ٹیم ٹیکس اہداف کی وصولی کے حوالے سے پُراعتماد نظر نہیں آتی ہے۔ عبدالحفیظ شیخ پوسٹ بجٹ کانفرنس ہی میں اس بات کو خارج از امکان قرار نہ دے سکے کہ حکومت ضمنی بجٹ پیش نہیں کرے گی۔

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں عبدالحفیظ شیخ سے سوال کیا گیا کہ آئندہ مالی سال کا ٹیکس ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے ہے جو موجودہ مالی سال کی حقیقی ٹیکس وصولی سے ایک ہزار 55 ارب روپے زائد ہے۔ اگر اس غیر حقیقی بجٹ پر صوبے اپنا بجٹ تخمینہ لگائیں گے تو پورے ملک کا مالی نظم و نسق ہل کر رہ جائے گا۔

اس سوال پر وفاقی مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک خواہش اور عزم کا اظہار کیا ہے اور 4 ہزار 900 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا ہے۔ مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ہدف حاصل ہو بھی سکے گا یا نہیں۔

عبدالحفیظ شیخ نے مزید کہا کہ مگر صوبوں کو حقیقی بجٹ بنانا ہوگا۔ انہیں اپنے بجٹ کو بناتے وقت ٹیکس وصولی کے ہدف کو 4 ہزار 900 کے بجائے 4 ہزار 600 ارب روپے رکھنا ہوگا اور اگر وہ حقیقی بجٹ نہیں بنائیں گے تو پھر یہ ان کا قصور ہوگا۔

یعنی وفاق اپنا بجٹ ایسے اہداف کی بنیاد پر بنائے جن کو حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حکمتِ عملی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں یقین ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ٹیکس جمع کرنے والی ایجنسی یہ ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر اپنی غلطی کو درست کرنے کے لیے صوبوں کو کہا جائے کہ وہ حقیقی بجٹ بنائیں تو یہ نہایت ہی نان پروفیشنل رویہ ہے جس کی توقع عبدالحفیظ شیخ سے ہی کی جاسکتی ہے۔

اب یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر 2 سال میں حکومت نے ایف بی آر میں وہ اصلاحات کیوں نہیں کیں کہ جن کی مدد سے حکومت بجٹ اہداف کو حاصل کرسکے۔

اسی طرح ایک صحافی کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ بجٹ تو ایک سہ ماہی کا لگ رہا ہے، کیا آنے والے دنوں میں مزید ضمنی بجٹ بھی آسکتے ہیں؟

اس سوال پر جواب دیا گیا کہ یہ کوئی اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی چیز نہیں ہے۔ اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ یہ بجٹ سالانہ ہے مگر ہمیشہ کی طرح ہمیں اپنا ذہن کھلا رکھنا ہوگا اور یہ ہمہ وقت مینجمنٹ ہے۔

جاری کھاتوں کا خسارے میں کمی اور صنعتی ترقی کو نقصان

پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں ڈالر کی بچت سے متعلق پالیسی اپنائی اور بڑے پیمانے پر درآمدات کی حوصلہ شکنی کی۔ جس میں روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ متعدد مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ یا کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ شامل تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی حکومت نے درآمد ہونے والی ایسی اشیاء پر بھی ڈیوٹی عائد کردی جس سے مقامی صنعت ویلیو ایڈیشن کرکے برآمد کیا کرتی تھی۔ اس پالیسی کی وجہ سے صنعتی پیداوار پر منفی اثرات پڑے اور مالی سال کے دوران صنعتی ترقی کا رجحان منفی 5.8 فیصد رہا۔

پی ٹی آئی حکومت ایک طرف تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کو اپنی بڑی کامیابی بتاتی ہے مگر دوسری طرف اگلے ہی مالی سال کے بجٹ میں اپنی درآمدات کی حوصلہ شکنی سے متعلق پالیسی پر بھی نظر ثانی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اشیاء پر عائد ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے خاتمے کا اعلان بھی فخریہ انداز میں کرتی ہے۔

مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ مالی سال 21ء-2020ء کے بجٹ میں ایک ہزار 623 ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ٹیکس میں کٹوتی کی گئی ہے۔ ان آئٹم میں ٹیکس اور ڈیوٹی یا تو صفر ہوگئی ہے یا پھر ایک سے دو فیصد کردی گئی ہے۔ اس فہرست میں کیمیکل، پیٹرولیم مصنوعات، چمڑے، انجیئنرنگ، ٹیکسٹائل، تیار شدہ گارمینٹ، ایل ای ڈی، پیکجنگ، ہوم اپلائنسز اور دیگر صنعتوں کا خام مال شامل ہے۔

محصولات میں صوبوں کا حصہ

وفاق کے محصولات کے قابلِ تقسیم پول کا 57.5 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل ہوجاتا ہے اور صرف 42 فیصد وفاق کے پاس بچتا ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران صوبوں کو 2 ہزار 873 ارب روپے وفاقی قابلِ تقسیم پول میں سے دیے جائیں گے جبکہ رواں مالی سال کے تخمینے میں صوبوں کا حصہ 3 ہزار 254 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ اس طرح آئندہ مالی سال وفاق سے صوبوں کو تقریباً 11 فیصد کم رقم ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

ریونیو کی وصولی میں کمی سے صوبوں کو محض 24 ہزار 2 ارب روپے ہی منتقل کیے جاسکے ہیں۔ ایسے میں مشیرِ خزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ صوبے حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں، کیونکہ ایسا وفاق تو نہیں کرے گا۔

سبسڈیوں میں کمی

وفاقی بجٹ میں سبسڈی میں نمایاں کمی کی جارہی ہے۔ مالی سال 20ء-2019ء میں حکومت نے 349 ارب ڈالر سبسڈی دی جسے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کم کرکے 209 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ اس طرح سبسڈی میں 140 ارب روپے کی کمی کردی گئی ہے۔ اس سبسڈی کا بڑا حصہ توانائی کے شعبے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر اور پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نشستیں فراہم کرنے والے کراچی کو بجلی کی مد میں سبسڈی کی رقم آدھی کردی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں 'کے الیکٹرک' کے لیے سبسڈی کی صورت میں 25 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ مالی سال 20ء-2019ء میں 'کے الیکٹرک' کو 59 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی تھی۔ صنعتی شعبے کے لیے بھی سبسڈی نصف کردی گئی ہے۔ رواں سال کے بجٹ میں 10 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی تاہم آئندہ سال کے بجٹ میں 5 ارب روپے کردی گئی ہے۔

سبسڈی میں کمی سے شہر میں صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوگا جبکہ شہری پہلے ہی اوور بلنگ کی شکایت کررہے ہیں۔

زراعت

پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر گزشتہ سال زرعی پیداوار میں 4.4 فیصد کمی ہوئی۔ یہ کمی موسمی تبدیلیوں اور بے موسم بارشوں کی وجہ سے فصلوں کو ہونے والے نقصان کی وجہ سے ہوئی۔

ملک کی تمام بڑی فصلوں گنے، کپاس، گندم کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

زرعی شعبے کو کورونا سے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا مگر ٹڈی دَل کے حملے نے زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بجٹ میں 10 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ تحفظ خوراک و زراعت کے فروغ کی غرض سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ترقیاتی فنڈز

وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 650 ارب روپے عوامی فلاحی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں۔

وفاقی وزارتوں کے ترقیاتی کاموں کے لیے 418 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 100 ارب روپے کارپوریشز، 3ارب روپے زلزلہ متاثرین اور 7 ارب روپے کورونا سے لڑنے اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

وفاق نے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لیے صرف 27 فیصد رقم مختص کی ہے۔ سماجی شعبے کی ترقی کے لیے مختص رقم کو 206 ارب روپے سے بڑھا کر 249 ارب روپے کردیا گیا ہے۔

وزارتِ آبی وسائل کے لیے 69 ارب روپے مختص ہوئے ہیں مگر دیامیر بھاشا ڈیم یا مہمند ڈیم کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی ہے؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ادھر خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت کو کم از کم ایک ہزار ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام دینا چاہیے تاکہ معیشت میں سرمائے کی گردش دوبارہ بحال ہو اور کورونا سے ہونے والے معاشی نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔

تعمیراتی صنعت کے لیے ریلیف

موجودہ حکومت ترقی کے انجن کے طور پر حکومتی ترقیاتی پروگراموں کے بجائے نجی شعبے کے تعاون سے ہاؤسنگ کی صنعت کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے چند ماہ قبل ہی تعمیراتی صنعت کے لیے وزیرِاعظم عمران خان نے ایک پیکج کا اعلان کیا جس میں بلڈروں اور ڈیویلپروں کو ٹیکس میں رعایت دی گئی ہیں۔ کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ اور سستی رہائش گاہیں تعمیر کرنے والوں کو ٹیکس پر 90 فیصد تک چھوٹ دی گئی ہے اور تعمیرات کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے۔

بجٹ میں اخوت فاﺅنڈیشن کے تعاون سے قرض حسنہ اسکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ اس اسکیم کے لیے ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے دیے گئے ہیں۔

تعمیرات کے خام مال پر بھی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ جس میں سیمنٹ پر فی کلو گرام 25 پیسے ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے جو فی بوری 15روپے بنتی ہے۔

کورونا بجٹ ریلیف

مالی سال 20ء-2019ء اور آئندہ مالی سال 21ء-2020ء کے بجٹ پر کورونا کا سایہ ہے جس سے معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ کورونا سے معیشت کو 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے دوران کورونا سے بچاؤ سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

بینکوں سے قرض

رواں مالی سال حکومت نے بینکوں سے 3 ہزار 389 ارب روپے قرض کا ہدف رکھا تھا مگر محصولات میں کمی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے بینکوں سے 17 ہزار 238 ارب روپے قرض لیا، یعنی حکومت نے ہدف سے 4 گنا سے زائد قرض لیا۔

شرح سود کم ہونے کے باوجود حکومت کی سودی ادائیگی میں آئندہ مالی سال اضافہ کیا جارہا ہے اور آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت سود کی مد میں 2 ہزار 946 ارب روپے بینکوں کو ادا کرے گی۔ یہ رقم موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے سے 9 فیصد زائد ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل

پی ٹی آئی کی حکومت بننے سے قبل ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔ مالی سال 20ء-2019ء کے بجٹ میں حکومت اس معاملے کو صرف منی لانڈرنگ کا قصہ ہی سمجھ رہی تھی اور کوئی اہم اقدامات نہیں اٹھائے گئے مگر جب ایف اے ٹی ایف نے اپنے 27 نکات پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالا تو حکومت کو ہوش آیا۔

بجٹ تقریر میں بتایا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کی 14شرائط پر عمل مکمل کرلیا ہے، 11 پر جزوی عمل کیا گیا ہے جبکہ 2 شرائط پر عمل درآمد کی کوشش جاری ہے۔ بجٹ میں حکومت نے متعدد ٹیکس اقدامات متعارف کرائے ہیں۔

ان ٹیکس اقدامات میں غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کی تعریف کو تبدیل کر کے ایف اے ٹی ایف کی گائیڈ لائن کے مطابق کردیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو عطیات وصول کرنے کا یکساں طریقہ کار بنا دیا گیا ہے۔ اور جن تنظیموں اور اداروں کو حکومت نے خصوصی مراعات دی ہیں انہیں واپس لے لیا گیا ہے

ایک طرف حکومت فلاحی تنظیموں کے عطیات پر نگرانی سخت کررہی ہے تو دوسری طرف اس نے تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری پر کوئی سوال نہ پوچھنے کی رعایت دی ہے۔ یہ رعایت ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے منافی ہے اور آئندہ جائزے میں اس پر اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے

جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ موجودہ بجٹ کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اس بجٹ میں گزشتہ بجٹ کے کیے گئے فیصلوں کی نفی بھی شامل ہے اور کسی بھی شعبے کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی 2 سالوں میں زراعت سے متعلق کوئی بڑا پروگرام متعارف نہیں کرواسکی ہے، جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہوئی، اور صنعتی ترقی بھی بحال نہیں رکھ سکی ہے جس کے باعث صنعتی پیداوار کا رجحان بھی منفی رہا، ساتھ ساتھ ریاست کے کاروباری اداروں کے خسارے کو کم کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا رہا۔

اس تمام تر صورتحال کی وجہ سے حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ ٹیکس وصولی میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ پاکستانیوں کو ایک اور مشکل سال کاٹنا ہوگا۔


ہیڈر بشکریہ راجہ معینی

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔