پاکستان

نثار مورائی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے، جے آئی ٹی

نثار مورائی نے بھاری رشوت لینے، بھتہ وصول کرنے، قتل میں ملوث ہونے اور جعلی ملازمین بھرتی کیے، تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ملزم کو سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا ہے۔

سندھ حکومت نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس جاری کر دی ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے اپریل 2016 میں تشکیل دی گئی 4 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کو ان کی مجرمانہ اور کرپشن کی تاریخ پر 'مجرم' قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دوست نے تفتیش کے دوران سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے متعدد مجرمانہ سرگرمیوں کا انکشاف کیا۔

رپورٹ کے مطابق نثار مورائی نے محکمہ فشریز میں 50 سے 200 جعلی ملازمین بھرتی کیے اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین سلطان قمر صدیقی سے ماہانہ بنیادوں پر بھتہ وصول کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نثار مورائی نے بھاری رشوت کے بدلے زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو سہولت فراہم کی، جواخانوں کی سرپرستی کی اور زمینوں نے چالان کلیئر کرنے کے لیے بھی رشوت وصول کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ، عزیر بلوچ، نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

نثار مورائی نے انکشاف کیا کہ ذوالفقار مرزا نے مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کو متحدہ قومی موومنٹ (الطاف) کے خلاف مضبوط کرنے کے لیے مالی معاونت، اسلحہ و گولہ بارود فراہم کیا۔

ملزم نے کہا کہ انہوں نے ذوالفقار مرزا کے ساتھ اور تنہائی میں عذیر بلوچ سے بھی ملاقاتیں کیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نثار مورائی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ سجاد حسین کے قتل میں ملوث تھے، جبکہ اس کیس میں وہ پہلے ہی اشتہاری مجرم قرار دیے جاچکے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے سفارش کی کہ نثار مورائی کے خلاف مجرمانہ کارروائی کا آغاز کیا جانا چاہیے، انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف کیسز کے چالان متعلقہ عدالتوں میں جمع کرائے جائیں۔

نثار مورائی کی گرفتاری

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر نثار مورائی کو جنوری 2014 میں متنازع طور پر فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔

وہ 2015 جون میں رینجرز کی جانب سے فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب چیئرمین سلطان قمر صدیقی اور دیگر کی گرفتاری کے بعد پراسرار طور پر غائب ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نثار مورائی 90 روز کیلئے رینجرز کی تحویل میں

بعد ازاں سلطان قمر صدیقی کو بھائی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا، جبکہ حملہ آوروں کو مبینہ طور پر ہتھیار فراہم کرنے پر سانحہ صفورا کیس میں اُن کا نام بھی مقدمے میں شامل کرلیا گیا۔

رینجرز نے جنوری 2016 میں پاکستان فشرفورک فورم اور ایف سی ایس ملازمین کی یونین کے سیکریٹری سعید بلوچ کو بھی، کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ، لیاری گینگسٹر نور محمد عرف بابا لاڈلہ اور بلوچستان لبریشن آرمی کو مبینہ طور پر فنڈنگ کے الزام میں 90 روز کے لیے تحویل میں لیا تھا۔

مارچ 2016 میں نثار مورائی کو بھی اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

17 مارچ 2016 کو رینجرز نے ڈاکٹر نثار مورائی کو 90 روز کے لیے تحویل میں لے کر انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج کو اطلاعی رپورٹ پیش کردی تھی۔