طالبان کے حملوں سے افغان امن عمل کو خطرات لاحق ہیں، اشرف غنی
افغان صدر اشرف غنی نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے حملوں اور پرتشدد واقعات سے ملک میں امن عمل خطرات سے دوچار ہے۔
اشرف غنی نے طالبان سے امن مذاکرات کے بارے میں عالمی برادری کو تفصیلات بتائیں جہاں فریقین تقریباً دو دہائی سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا کا آن لائن پڑھنے والے غیر ملکی طلبہ کو ملک چھوڑنے کا حکم
افغان حکام اور طالبان بین الافغان مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں جس کا مقصد جنگ زدہ ملک میں پائیدار امن کا قیام ہے اور امریکا، طالبان معاہدے کے تحت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔
مئی میں طالبان کی جانب سے سیزفائر کی پیشکش کے بعد تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم حالیہ عرصے میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا جس سے بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اور شہری مارے گئے۔
واضح رہے کہ امریکا میں 9/11 کے حملے کے بعد امریکا نے القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔
پیر کو اشرف غنی نے تین آن لائن کانفرنس میں سے پہلی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں عالمی برادری کو ممکنہ امن مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: مصر: کورونا کے پھیلاؤ پر بات کرنے والے ڈاکٹرز گرفتار، ناقدین کو بھی خاموش کرادیا گیا
انہوں نے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے شرکا کو آن لائن سیشن میں بتایا کہ اگر طالبان لڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو افغان امن عمل سنگین خطرات سے دوچار ہو جائے گا اور بدقسمتی سے اس وقت پرتشدد واقعات گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
اشرف غنی بقیہ دونوں آن لائن کانفرنسز کا انعقاد بھی رواں ہفتے ہی کریں گے۔
حکام نے بتایا کہ امریکا، روس سمیت اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے حکام بھی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ دیگر شریک ممالک میں پاکستان، بھارت، چین، ایران، مصر اور قطر شامل ہیں۔
اس سے قبل پیر کو آن لائن کانفرنس سے قبل افغان صدر کے ترجمان نے بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
صدیق صدیقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نظر میں امن عمل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان سنجیدہ نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: قاسم سلیمانی کا قتل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار
انہوں نے کہا کہ حکومت افغانستان نے تشدد میں کمی کے لیے بڑی تعداد میں طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے لیکن پرتشدد واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
افغان حکام فروری میں ہوئے معاہدے کے تحت 5 ہزار میں سے 4 ہزار قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں جہاں مذکورہ معاہدے پر عملدرآمد کی صورت میں غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔
مذکورہ معاہدے کے تحت امریکا نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے 8 ہزار 600 کردی ہے اور معاہدے کے موقع پر 12ہزار سے زائد امریکی اہلکار موجود تھے۔
طالبان نے حمالیہ عرصے میں ہونے والے اکثر حملوں کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کیا تاہم انہوں نے قبول کیا ہے کہ ان کے جنگجو دیہی علاقوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔