نقطہ نظر

افسانہ: ’میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’

میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’، یہ کہہ کر اس نے تیزی سے بیوی کی کمر کے پیچھے سے تکیہ نکالا اور اس کے منہ پر رکھ دیا۔

تضاد


وہ آدمی عورتوں کے حقوق کا علمبردار تھا، اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تحریریں لکھتا۔ مختلف ادارے اپنی تقریبات میں اسے بلاتے اور جہاں جہاں وہ بولتا تو لوگ اس کے فنِ تقریر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے اور سوچتے کہ کتنا درد ہے اس آدمی کے سینے میں۔

لیکن وہی آدمی جیسے ہی اپنے گھر میں داخل ہوتا تو اس کا رویہ یکسر بدل جاتا۔ کوٹ کہیں پھینک دیتا تو جرابیں کہیں۔ چیخنا چلانا شروع کردیتا کہ کھانا اور پانی لاؤ کہ وہ سارا دن محنت کر کرکے بے حد تھک گیا ہے۔ اس کی بیوی جب کبھی تنگ آکر سوشل میڈیا پر لکھی اس کی تحریروں کا طعنہ دیتی تو وہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

ایک رات ان دونوں کا اتنا شدید جھگڑا ہوا کہ اس نے غصے میں اپنی بیوی کا سر دیوار سے ٹکرا دیا۔ ٹکر لگتے ہی وہ فوراً لڑکھڑا کر زمین پر گری اور بے ہوش ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس آدمی کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے بیوی کے چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کیا لیکن وہ ہوش میں نہ آئی۔ خوف کے مارے آدمی کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ مرگئی اور پولیس نے اسے پکڑلیا تو کیا اسے پھانسی ہوجائے گی؟ اس سوچ نے اسے پریشان کردیا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: نالہ لئی میں بہتے خواب

‘میں اسے ہسپتال لے جاتا ہوں بعد میں معافی مانگ لوں گا۔ پہلے بھی تو کئی بار ہمارا جھگڑا ہوچکا ہے اور یہ مجھے معاف بھی کردیتی تھی‘، اس نے بیوی کو کندھے پر اٹھایا اور باہر آکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹادیا۔ گاڑی چلانے سے پہلے ایک بار پھر بیگم کی نبض چیک کی اور اطمینان کا سانس لیا کہ وہ ابھی زندہ تھی۔

سارا راستہ وہ سوچتا رہا کہ ہسپتال جاکر وہ کیا بہانہ کرے گا کہ اس کی بیوی کیسے بے ہوش ہوئی اور اس کے ماتھے پر زخم کا نشان کیسے پڑا؟ لیکن وہ اداکاری کا بڑا ماہر تھا، جیسے ہی ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹر اس کے پاس آیا تو وہ تقریباً روتے ہوئے چلایا ‘ڈاکٹر صاحب پلیز میری بیوی کو بچالیجیے، وہ سیڑھیوں سے پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گرگئی ہے اور تب سے بے ہوش ہے’۔

ڈاکٹر نے اسے حوصلہ دیا۔

چیک اپ ہوا، کئی ٹیسٹ کیے گئے اور پتا چلا کہ اس کی بیوی کے سر میں شدید چوٹ آئی ہے جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلی گئی ہے۔ ڈاکٹر حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے کہ وہ کب تک کوما میں رہے گی۔

آہستہ آہستہ اس آدمی کے اندر سے خوف ختم ہوتا گیا، وہ پھر خواتین کے حقوق کی بحالی کے حوالے سے منعقدہ کانفرنسوں کا روح رواں بن گیا۔ ایک سال تک اس کی بیوی کومہ میں رہی۔ پھر ایک شام اسے ڈاکٹر کا فون آیا، ‘مبارک ہو، آپ کی بیوی کو ہوش آگیا ہے۔ ہم نے آج ان کے کچھ مزید ٹیسٹ بھی کیے ہیں، آپ فوراً ہسپتال پہنچیں‘۔

اس نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کردیا لیکن خوف اس کے اندر پنجے گاڑنے لگا۔ وہ ہسپتال کی جانب جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ اسے کتنا عرصہ قید ہوگی اور پھر اس کی ساکھ کو کس قدر نقصان پہنچے گا؟ لوگ کیا کہیں گے کہ وہ کانفرنسوں میں بولنے والا اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے۔ اس طرح تو اس کا سارا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔ وہ رہ رہ کر اپنی بیوی کو کوستا کہ آخر کیوں وہ ہوش میں آگئی جب کہ اگلے ہی ہفتے وہ دوسری شادی کرنے والا تھا۔

وہ جب ہسپتال میں اس کمرے میں پہنچا جہاں اس کی بیوی داخل تھی تو ایک نرس باہر نکل رہی تھی، وہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور کہا ‘مبارک ہو، آپ کی بیوی ہوش میں آگئی ہے۔‘

وہ لرزتے قدموں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ اس کی بیوی بیڈ پر ٹیک لگائے سامنے دیوار کو گھورے جا رہی تھی۔

‘ہانیہ‘، اس نے آہستگی سے پکارا۔

اس کی بیوی نے اس کی جانب تھکی ہوئی نگاہوں سے دیکھا جیسے وہ اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔

بیوی کی نگاہوں سے اسے خوف آنے لگا۔ اس کے بدن پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی۔

’میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’، یہ کہہ کر اس نے تیزی سے بیوی کی کمر کے پیچھے سے تکیہ نکالا اور اس کے منہ پر رکھ دیا۔ تھکا ہارا جسم کچھ لمحے کے لیے تڑپا اور پھر سرد ہوگیا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: کھڑکی سے جھانکتی زندگی

اس نے بیوی کو پھر بیڈ پر لٹا کر تکیہ اس کے سر کے نیچے رکھ دیا اور باہر جانے کے لیے پلٹا کہ ڈاکٹر ہاتھ میں فائل لیے اندر داخل ہوا۔

‘عماد صاحب آپ آگئے، میں آپ کو ہی فون کرنے لگا تھا۔ دراصل آپ کی بیگم کے ہوش میں آنے کے بعد ہم نے کچھ ٹیسٹ کیے تھے۔ مجھے بتاتے ہوئے کافی دکھ ہورہا ہے لیکن آپ کی بیگم کی یادداشت مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور اب یہ کسی کو پہچان نہیں پائیں گی‘۔


آزادی


معلوم نہیں اس گلی میں وہ بلی کہاں سے آئی تھی۔ سارا دن اِدھر سے اُدھر گھومتی رہتی اور جونہی قصاب کے کتے کی نظر بلی پر پڑتی تو وہ اس کے پیچھے لپکتا، گرد و غبار کا ایک طوفان گلی میں اٹھتا۔ بلی چیختی چلاتی جبکہ عورتیں گھروں میں بیٹھے بیٹھے زیرِ لب بڑبڑاتیں کہ ‘کس قدر ظالم کتا ہے قصاب کا، بیچاری بلی کو جینے نہیں دیتا۔ بالکل قصاب پر گیا ہے۔ ہر شے ہڑپ کرنے کی جستجو میں پھرتا ہے، چاہے اس پر اس کا حق بنتا بھی ہو یا نہیں۔‘

قصاب جو ہر وقت جھگڑا کرنے کے لیے بے چین رہتا تھا، اسے گلی کے چند بزرگوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سمجھایا کہ کتے کو باندھ کر رکھا کرے کہ یہ بلی سے لڑتا ہے اور بچے بھی اس سے ڈرتے ہیں۔ قصاب یہ سن کر ہنستا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتا کہ وہ اپنے کتے کو ہرگز نہیں باندھے گا۔

گلی کے ایک نوجوان نے سوچا کہ اس طرح تو کسی روز کتا بلی کو چیر پھاڑ کے رکھ دے گا تو کیوں نہ وہ بلی کو کسی دُور دراز مقام پر چھوڑ آئے؟ اسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے ایک بڑی سی بوری میں بلی کو قید کیا اور قصبے سے باہر نکل گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ بلی کو بڑے گڑھوں کے پاس چھوڑ آئے گا جن کے اندر پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا سارا پانی جمع ہوتا تھا۔ ایک بڑے سے گڑھے کے کنارے اس نے بوری کو الٹ دیا۔ بلی نے باہر نکل کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن سارا منظر اس کے لیے اجنبی تھا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: آخری گہرا سانس

نوجوان نے اونچی آواز میں کہا، ‘جاؤ اب تم آزاد ہو۔ قصاب کا کتا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا’، یہ کہہ کر وہ واپسی کے لیے مڑا اور ابھی اس نے چند قدم کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اسے بلی کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔ ایک بڑا مگرمچھ گڑھے سے نکل کر بلی کو دبوچے پانی کے اندر اتر رہا تھا۔


بچاؤ


ایک جاگیردار کی فصلوں کو بچانے کی خاطر جب راتو رات نہر کا حفاظتی بند توڑا گیا تو پانی کا رخ غریبوں کی بستی کی جانب موڑ دیا گیا۔ یہاں سے وہاں تک جہاں تک نظر جاتی تھی پانی ہی پانی تھا اور پوری بستی ڈوب چکی تھی۔

ایک روز پہلے جب بند توڑنے کی خبر پھیلی تو بستی کے لوگوں نے سڑک پر بیٹھ کر احتجاج کیا تھا اور رات کو اس اطمینان کے ساتھ گھروں کو لوٹے تھے کہ حکومت وڈیرے کی فصلوں کو بچانے کے بجائے ان انسانوں کے بارے سوچنا شروع کردے گی لیکن آدھی رات کے وقت شور اُٹھا۔

‘بھاگو، بھاگو، بند ٹوٹ گیا ہے، ایک گھنٹے میں بستی ڈوب جائے گی۔‘

اتنے کم وقت میں جب آدمی کو کچھ بچانا پڑے تو وہ صرف اور صرف اپنی جان کے بارے میں ہی سوچتا ہے لیکن لوگوں نے پھر بھی جو ہاتھ آیا، اٹھایا اور پہاڑ پر چڑھ کر اپنے اپنے گھروں کو اندھیرے میں اس امید کے ساتھ دیکھنے لگے کہ شاید پانی گلیوں ہی سے اپنا رُخ تبدیل کرلے یا پھر ان کے کھلے دروازوں تک آئے اور انہیں اندر نہ پاکر لوٹ جائے۔ لیکن اگر پانی کی آنکھیں ہوتیں تو وہ ان کچے سیم زدہ مکانوں کو، جن کی الماریوں میں ٹوٹے ہوئے برتن تھے، کبھی نہ ڈبوتا۔

لیکن جب روشنی ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھر بھی ان کی قسمت کی طرح ذرا دیر کو ابھرتے اور پھر ڈوب جاتے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: زرد شام

ایک بوڑھا ‘میرا گھر، میرا گھر’ پکارتا ہوا پہاڑ سے نیچے اترنے لگا۔ کئی نوجوان اسے پکڑنے کے لیے پیچھے بھاگے لیکن وہ ان سے پہلے پاؤں پھسلنے کی وجہ سے لڑھکنے لگا تھا۔ دو، تین قلابازیاں کھا کر وہ ایک پتھر کی وجہ سے مزید نیچے گرنے سے بچ گیا۔

نوجوانوں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا۔

‘چاچا کیا ہوگیا ہے؟ پہاڑ سے کوئی اس طرح اترتا ہے جیسے تم بھاگتے ہوئے اتر رہے تھے؟’

‘لیکن وہ میرا مکان ڈوب گیا ہے۔’

‘ساری بستی ڈوب گئی ہے، صرف تمہارا مکان تو نہیں ڈوبا۔ ہمارے مکان بھی ڈوب گئے ہیں۔‘

‘ہاں لیکن تمہارے بال ابھی سفید نہیں ہوئے،‘ بوڑھے نے کہا اور وہیں بیٹھ کر رونے لگا۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔