نقطہ نظر

وسیم اختر کے خطوں کا مجموعہ ‘خطوط غائب’

وسیم اختر کا شکوہ سن کر آنکھیں بھر آئیں کہ ان کے ہاتھ باندھ دیے تھے۔ ظالمو! یہ کیا کیا؟ شعلے کےری میک میں گبر سنگھ کو ٹھاکر بنادیا

میر نے درد و غم جمع کرکے دیوان کیا تھا اور ہمارے میئر نے اپنے دُکھڑے جمع کرکے پریس کانفرنس کی۔ اپنے دکھ انہوں نے بیان ہی نہیں کیے اربابِ حکومت کو لکھے گئے خطوط کی صورت میں دکھائے اور پھینک دیے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ہزاروں خط ہیں جن میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں آیا۔ حیرت ہے، اتنے خط سنگ دل سے سنگ دل محبوب کو لکھے جاتے تو وہ کسی عامل بابا کے عمل کے بغیر قدموں میں آگرتا۔ بہتر ہوتا کہ وسیم اختر صاحب تمام اصحاب کو لکھے گئے ہر خط کے آخر میں

شیشی بھری گلاب کی پتھر سے توڑ دوں

خط کا جواب نہ ملے خط لکھنا چھوڑ دوں

رقم کرتے تو شاید جواب آجاتا۔ ورنہ باقی کے ہزاروں خطوط لکھنے کی زحمت سے بچ جاتے اور قسم نبھانے کے لیے شیشی بھری گلاب (کی خوشبو) کی توڑ دیتے، اس سے زیادہ توڑپھوڑ کے تو وہ ویسے بھی قابل نہیں رہے ہیں۔

ویسے اچھا ہی ہوا کہ وہ خط لکھتے رہے یوں ان کے پاس اپنے ہی لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ مرتب کرنے کا سامان ہوگیا اور ہمارے تاریخ و ادب میں خطوط کا اضافہ۔ اب تک ‘لیلٰی کے خطوط’، ‘انکل سام کے نام’ خطوط، ‘خطوطِ غالب’ اور ‘ماﺅں بہنوں کے نام خط’ سے ہم واقف تھے، وسیم اختر کا مجموعہ ‘خطوطِ غائب’ کے عنوان سے شائع ہوکر دھوم مچا سکتا ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے خط پھینک دیے۔ کتنا رومانوی لگتا اگر خط یوں اچھالنے کے بجائے وہ ‘تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں’ کا شاعرانہ طرزِ عمل اپناتے۔ خط گنگا میں بہانے کے لیے انہیں سرحد پار جانے کی ضرورت نہیں تھی جس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں اور جہاں گنگا نہا کر ان کی جماعت پاک ہوئی ہے وہیں بہادیتے۔ ورنہ تو ان دنوں کراچی کی ہر سڑک اور گلی گنگا بنی ہوئی ہے، کہیں بھی اپنے نامے لہروں کے حوالے کردیتے۔ خیر ان کی مرضی۔

خبروں کے مطابق وسیم اختر نے یہ پریس کانفرنس اپنی کارکردگی کے حوالے سے کی اور فرمایا، ’ہم نے حوصلہ نہیں ہارا اور نئے عزم کے ساتھ شہر کی ترقی کا سفر شروع کیا۔ متعدد محکموں کو فعال کیا اور اہم اقدامات کے ذریعے شہریوں کو سہولیات فراہم کیں‘۔

واقعی یہ ان کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے اپنی ‘کارکردگی’ کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔ حوصلہ تو کرلیا مگر جب پَلّے کچھ نہ ہو تو حوصلے سے کیا ہوتا ہے۔ سو جس حوالے سے پریس کانفرنس کی تھی اس کا کوئی حوالہ انہیں ڈھونڈے سے بھی نہ ملا۔ بس اپنی بے چارگی بیان کرتے رہے۔ یہ بے چارگی دیکھ کر ہمیں پرانی فلموں میں ہیروئن کا بے وفائی کا طعنہ دیتے ہیرو کے سامنے سسک سسک کر ‘میں بہت مجبور تھی انور’ کہتے ہوئے آنچل میں یا ہاتھوں سے منہ چھپا کر روتے روتے دوڑ جانا یاد آ گیا۔ روئے تو میئر صاحب بھی لیکن منہ نہیں چھپایا۔ 4 سال تک چھپائے چھپائے بیزار ہوگئے ہوں گے۔

ہمیں ان لوگوں پر افسوس ہے جو میئر صاحب کے رونے پر ہنس رہیں ہیں۔ بھئی ہمارے ہاں رخصتی کے وقت رونے کا رواج ہے، اب وسیم اختر اگر بابائے شہر ہونے کی رسم نہ نبھا سکے تو کیا شہر کی بیٹیوں کی روایت بھی نہ نبھاتے۔

وسیم اختر کا یہ شکوہ سُن کر ہماری آنکھیں بھر آئیں کہ ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے تھے۔ ہائے ظالمو! یہ کیا کیا ‘شعلے’ کا ری میک بنایا اور گبر سنگھ کو ٹھاکر بناکر رکھ دیا۔ یہ تو وسیم اختر کا کمال ہے کہ ہاتھ بندھے ہونے کہ باوجود انہوں نے خوب ہاتھ دکھائے۔ واضح کردیں کہ یہاں ہم نے پاک سرزمین کے اس کمال کا ذکر نہیں کیا جو کسی اور کا کمال ہے۔

محترم میئر نے کراچی کے بارے میں فرمایا، ’یہ شہر پورے ملک کو پالتا ہے۔ سندھ حکومت کی سرد مہری کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا رہا ہوں’۔ ملک کو پالنے کا تو پتا نہیں لیکن کراچی بیرونِ ملک بہت سوں کو پالتا رہا ہے۔ دراصل اس شہر کو پالنے کا بہت شوق ہے۔ یہ تو آستین میں بھی پال لیتا ہے۔ ان سے اس شہر کے لوگوں کا تب ہی پالا پڑتا ہے جب وہ گورنری، میئر شپ اور کسی جماعت کی قیادت کے پالنے میں جھولنے کے لیے کراچی واپس آتے ہیں۔

ہم یہ سوچ کر حیران ہیں کہ ’میئر’ کیا سادہ ہیں، جو حکومتِ سندھ سے سردمہری کے بجائے گرم جوشی کی امید لگائے بیٹھے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ درِ مُراد سے دل کی مراد بر آئے گی۔ اس امید میں میعاد ختم ہوگئی۔ اب جاکر وہ حکومت کی سردمہری پر گرم ہوئے ہیں۔ یہ 4 سال کا رکا ہوا غصہ تھا جو آخر (میئرشپ کے) وقت آخر پر ‘خطا’ ہوگیا۔

ایک بھارتی فلم تھی ‘البرٹ پِنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے’ اب فلم بننی چاہیے ‘وسیم اختر کو اتنی دیر سے غصہ کیوں آتا ہے؟’ ایک بدتمیز بچے نے میئر کی پریس کانفرنس سن کر کہا، ’ان کا غصہ سلو Slow ہے کیا؟’ اسے تو ہم نے ڈانٹ دیا لیکن سوچ رہے ہیں کہ جو وسیم اختر اکثر غصے میں رہتے تھے، وزارت میں ہوں، ٹاک شو میں یا اسمبلی میں جہاں ہوتے وہاں سے زیادہ غصے میں ہوتے تھے، آج ان کا غصہ اتنا سست رفتار کیسے ہوگیا؟ تب تو یہ اکثر آتا بھی لندن سے تھا لیکن کتنی جلدی آجاتا تھا۔ شاید غصہ بھی موبائل فون کی طرح زیادہ استعمال سے ‘ہینگ’ ہوجاتا ہے۔

ان کی زبانی یہ سن کر بھی ہمارا دل بہت دکھا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر کھڑے رہے، لیکن کسی نے ان کی فریاد نہیں سنی۔ اور وہ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے چکر لگا لگا کر تھک گئے۔ کراچی کے شہریو! تم طعنے دیتے تھے کہ ‘میئر کہاں ہے’ اب تمہیں معلوم ہوا کہ وہ کہاں تھے۔ وہ ہر روز ایوانِ وزیرِ اعلیٰ کا چکر لگاتے تھے۔ اس چکر میں کہ اپنے دفتر میں چائے پینے کے پیسے بچا کر اس رقم سے شہر کو ترقی دی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خطوط کا جواب نہ آنے پر نامہ بر پر عدم اعتماد کرتے ہوئے خود خط لے کر پہنچ جاتے ہوں۔ لیکن افسوس ان چکروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ‘جیسا گیا تھا ویسے ہی چل پھر کے آگیا’۔ کم از کم انہوں نے بتایا ہی ہوتا کہ میں وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر کب سے کھڑا ہوں، یہاں تک کہ میں نے ‘مُکوں’ سے درِ یار پہ دستک دی ہے پھر بھی دروازہ نہیں کھل رہا۔

ہم شہری کم از کم ان کے لیے کرسی یا چارپائی لے جاتے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ کہیں اور کے چکر لگانے یا اب عوام کو چکر دینے کے بجائے شہر کی گلیوں محلوں کے چکر لگاتے اور استعفٰی دے کر عوام میں آکھڑے ہوتے۔ مگر وسیم اختر صاحب کو سلام ہے کہ وہ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر کھڑے رہے اور واپس جاکر پھر میئر کی کرسی پر بیٹھ گئے۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں بطور میئر انجام دیے والے اپنے کارنامے بھی گنوائے، جو یہ ہیں۔

گنتی ختم اللہ اللہ خیر صلا۔ ویسے تو تاریخ میں انہیں امر رکھنے کے لیے ان کے یہی کارنامے کافی ہیں لیکن اپنی کچھ خدمات انہوں نے کسرنفسی کی بنا پر بیان نہیں کیں جن کا ذکر ہم کیے دیتے ہیں۔

کتنی خدمات کا ذکر کریں اس کے لیے تو پوری کتاب بھی کم پڑجائے گی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان خدمات کے اعتراف میں کراچی کا نام بدل کر ‘دی وسیم اختر’ رکھ دیا جائے۔

وسیم اختر نے پریس کانفرنس میں شہریوں کو ‘ہدایت’ دی کہ کراچی کے لوگ اٹھیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں۔ ہم پاؤں پھیلائے لیٹے جماہیاں لے رہے تھے، لیکن جب اپنے محبوب میئر کی اپیل سنی تو ‘فَٹ دھنی سے’ باہر نکل آئے، یہ سوچ کر کہ سڑک پر وسیم اختر کھڑے آواز اٹھارہے ہوں گے، لیکن باہر دیکھا تو ہر طرف نالے تھے، جوہڑ تھے، نہ کہیں سڑک تھی نہ وسیم اختر۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔