اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کو 10ستمبر سے قبل 'سرنڈر' کرنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست پر نواز شریف کو 10 ستمبر کو اگلی سماعت سے قبل سرنڈر کرنے حکم دیا ہے بصورت دیگر کے ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی درخواست، نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
ساتھ ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹروں نے اجازت دی تو پہلی پرواز سے پاکستان واپس آجاؤں گا، نواز شریف
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، شریف خاندان کے خلاف دائر مختلف ریفرنسز کی متفرق درخواستوں کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں ان کے ہمراہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر، مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں اتنا رش ہے اگر کورونا وائرس پھیل گیا تو کون ذمہ دار ہوگا، تھوڑی احتیاط ہمیں خود بھی کرنی چاہیے، ہمارے اسٹاف کو بھی عدالت آنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، عام آدمی کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔
عدالت میں وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے میاں نواز شریف واپس نہیں آسکتے لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ زیر سماعت ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جو مجرمانہ اپیل ہمارے پاس ہیں اس پر وہ ضمانت پر تھے، کیا کرمنل اپیل نمبر ایک کا فیصلہ معطل ہو گیا ہے؟
عدالت نے دریافت کیا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیا تھا تو کیا العزیزیہ کی سزا ختم ہوگئی؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کی سزا مختصر مدت کے لیے معطل کی تھی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ بیان حلفی کا پیراگراف نمبر 2 پڑھیں، کیا لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کو ایک طرف کیا جاسکتا ہے؟
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا ضمانت یا سزا معطلی سے کوئی تعلق نہیں، ضمانت اور سزا معطلی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نام ای سی ایل سے نکلنے والی درخواست پر فیصلہ کیا تھا جبکہ ہم نے یہاں سزا معطلی اور ضمانت کیس کو ریگولیٹ کرنا ہے۔
نواز شریف اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، وکیل
خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف ضمانت پر نہیں ہیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے سرینڈر کیا ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں، پنجاب حکومت کو ضمانت میں توسیع کی اپیل کی لیکن انہوں نے مسترد کر دی، نواز شریف نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے وزارت داخلہ سے رجوع کیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وزارت داخلہ نے میڈیکل بورڈ بنا کر پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد ضمانت منظور ہوئی تھی جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مشروط ضمانت ملی۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا موجودہ اسٹیٹس یہ ہے کہ وہ اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، یہ لیگل پوزیشن ہے کہ وہ ضمانت پر نہیں بلکہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے اور ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد ہوئی تو بھی وہ بیرون ملک زیر علاج تھے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بیماری پر متعدد میڈیکل بورڈز تشکیل دیے گئے تھے، نواز شریف کی بیماری کے باعث پرائیویٹ اور سرکاری میڈیکل بورڈز نے بیرون ملک علاج تجویز کیا، نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے واپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی ہیں، نواز شریف کو جو بیماریاں تھیں اس کا علاج پاکستان میں موجود نہیں۔
خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ بیان حلفی دیا گیا ہے کہ صحت یابی کے بعد ڈاکٹرز نے اجازت دی تو پاکستان واپس آ جائیں گے، نواز شریف کو طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تھی۔
مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت مشروط اور ایک مخصوص وقت کے لیے تھی۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائی گئی تھیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، اس کے باوجود نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے کب ضمانت میں توسیع کی اپیل خارج کی جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ 27 جنوری کو ضمانت میں توسیع کی درخواست پر فیصلہ ہوا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل سے دریافت کیا کہ پنجاب حکومت نے جو آرڈر پاس کیا، کیا آپ نے اسے چیلنج کیا؟
جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ وہ آرڈر چیلنج نہیں کیا اور اس کی وجہ بھی درخواست میں لکھی ہے کہ نواز شریف ملک میں نہیں اس لیے آرڈر چیلنج نہیں کیا گیا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوا، وہ فیصلہ اب حتمی ہو چکا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نہیں وہ اس وقت ہسپتال میں نہیں ہیں تاہم ان کا علاج چل رہا ہے جیسے ہی ٹھیک ہوں گے وہ واپس آجائیں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اب نواز شریف ضمانت پر نہیں ہیں لیکن انہیں ابھی تک سفر کی اجازت نہیں ملی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ میڈیکلی فٹ نہیں ہوں گے لیکن کوئی دستاویزات تو دکھائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹ بھی موصول ہو گئی ہے جو دفتر خارجہ سے تصدیق کے بعد جمع کرائی جائے گی جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ رپورٹ ابھی ہمارے سامنے نہیں، ہمارے پاس جون کی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔
جس پر وکیل نے کہا کہ نواز شریف پاکستان آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کورونا وبا کی وجہ سے علاج میں تاخیر ہوئی، پنجاب حکومت کو ہم نے کئی بار ضمانت میں توسیع کا کہا ہوا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں کہ نوازشریف عدالت سے فرار نہیں ہوئے، نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا تب اپیل آگے چلے گی۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا نواز شریف کی صحت پر کیا مؤقف ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی صحت کو وفاقی حکومت نے ہائی کمیشن کے ذریعے چیک کرنا تھا تاہم ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ عدالت کو آگاہ کرنا ہے۔
اگر نواز شریف مفرور ہیں تو علیحدہ سے 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے، عدالت
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور تو نہیں اس کا جائزہ وفاقی حکومت لے سکتی ہے لیکن وفاقی حکومت نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، نواز شریف کا علاج جاری ہے جب علاج مکمل ہوگا واپس آئیں گے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں، اگر نواز شریف مفرور ہیں تو علیحدہ سے 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیے کہ ٹرائل یا اپیل میں پیشی سے فرار ہونا بھی جرم ہے لیکن ہم نواز شریف کو اس وقت مفرور قرار نہیں دے رہے۔
جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے کہا کہ نواز شریف کی موجودگی کے بغیر اپیل کیسے سنی جاسکتی ہے دلائل دیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرا چکا ہوں، دوسرا بھی کروا دوں گا، عدالت تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اس پر فیصلہ کرے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر نواز شریف کی غیر حاضری میں اپیل خارج ہو گئی تو کیا ہوگا؟ اگر عدالت نواز شریف کو مفرور ڈیکلیئر کر دے تو پھر اپیل کا کیا اسٹیٹس ہو گا؟
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر نواز شریف جان بوجھ کر نہیں آتے پھر عدالت چاہے انہیں مفرور قرار دے، عدالت نے دریافت کیا کہ اگر ہم نواز شریف کو مفرور قرار دیں تو اپیل کی کیا حیثیت ہوگی؟
سماعت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں کی مخالفت میں دلائل دیے۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف علاج کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی دونوں درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، درخواستوں کے ساتھ تفصیلی بیان حلفی نہیں ہے۔
جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ آج ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں، نواز شریف کا پیش نہ ہونا عدالتی کارروائی سے فرار ہے اور نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کے دلائل پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر دونوں اپیلوں کا کیا ہو گا؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے ہے جس پر عدالت نے انہیں ٹوکا کہ ابھی جج ارشد ملک کی ویڈیو پر دلائل نہ دیں پہلے حاضری سے استثنیٰ پر ہی دلائل دیں۔
جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا نواز شریف نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کرسکتے ہیں؟ جس کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف مفرور ہوگئے تو عدالت نمائندہ مقرر کرسکتی ہے اور نیب کو سن کر میرٹ پر فیصلہ کرسکتی ہے۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کا حکم نامہ کہیں چیلنج نہیں ہوا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک تاریخ دیں گے اس پر نوازشریف کو پیش ہونا پڑے گا، ہمیں ضمانت دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہو گی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی ہم نواز شریف کو مفرور ڈیکلیئر نہیں کر رہے بلکہ سرینڈر کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، آئندہ تاریخ پر نواز شریف کو عدالت پیش ہونا پڑے گا۔
جس پر خواجہ حارث نے عدالت سے کہا کہ پھر تو آپ نے فیصلہ کر دیا کہ وہ ہر صورت واپس آئیں۔
خواجہ حارث کے اعتراض پر جسٹس محسن اختر کیانی سے دریافت کیا کہ آپ کو کوئی تحفظات ہیں کہ نوازشریف کو ائیرپورٹ پر گرفتار کر لیا جائے گا؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں بتائیں ہم نوازشریف کو عدالت آنے تک پورا تحفظ فراہم کریں گے۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ایسا خدشہ ہوا تو میں عدالت سے رجوع کر لوں گا، بعدازاں کیس کی سماعت 10 ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
تحریری فیصلہ
درخواست گزار کے فاضل وکیل نے تسلیم کیا کہ عدالت نے درخواست گزار کی سزا اس مشاہدے کے ساتھ 8ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی کہ اگر اس میں توسیع کی جاتی ہے تو حکومت پنجاب کو بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔
عدالت نے کہا کہ 27فروری 2020 کو صوبائی حکومت نے بتایا کہ انہوں نے سزا کی معطلی میں توسیع نہیں کی اور درخواست گزار کی سزا کی معطلی اور ضمانت کی مدت ختم ہو چکی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ فاضل وکیل نے تسلیم کیا تھا کہ درخواست گزار کی صحت انہیں پاکستان آنے اور عدالت میں پیشی کی اجازت نہیں دیتی اور عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کنرے کے بعد اسی بنیاد پر بیرون ملک گئے تھے۔
انہوں نے درخواست گزار کے بھائی نے عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر درخواست گزار کو چار ہفتوں سے زائد بیرون ملک قیام کرنا پڑا تو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن ان کی صحت کے بارے میں معلوم کرے گا۔
اس تمام کارروائی کے دوران فاضل وکیل سے پوچھا گیا کہ کیا درخواست گزار کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا جس پر انہوں نے نفی میں جواب دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے نے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ کیونکہ درخواست گزار ضمانت پر نہیں ہے لہٰذا انہیں اشتہاری قرار دیا جائے البتہ دونوں فاضل وکلا نے تسلیم کیا کہ اشتہاری قرار دیے جانے کے باوجود درخواست کا فیصلہ میرٹ پر ہونا چاہیے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر محمود کیانی کو عدالت طلب کر کے دریافت کیا کہ کیا درخواست گزار کی صحت کی صورتحال جاننے کے لیے کوئی کوشش کی گئی جس پر انہوں نے عدالت سے جواب دینے کے لیے وقت مانگ لیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر درخواست گزار کی طبیعت ناساز رہتی ہے تو وہ حخومت پنجاب سے 4ہفتوں کی توسیع کی درخواست کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ درخواست گزر ضمانت پر نہیں ہیں اور عدالت میں بھی موجود نہیں ہیں لیکن انہوں نے طبی بنیادوں پر عدالت میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی ہے۔
عدالت نے بھی کہا کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا حکم صادر کیا تو اس فیصلے کے سزا کی معطلی کے فیصلے پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے کیونکہ یہ فیصلہ اس عدالت نے سنایا تھا۔
عدالت نے کہا کہ تمام تر حالات اور انصاف کے مفاد میں عدالت درخواست گزار کو عدالت میں پیشی اور اگلی پیشی سے قبل حکام کے سامنے 'سرنڈر' کرنے حکم صادر کرتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر اس فیصلے پر حکم نہیں کیا گیا تو قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کو ان تمام احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے اگلی پیشی پر آگاہ کرے۔
مقدمے کی دوبارہ سماعت 10 ستمبر 2020 کو ہو گی۔
نواز شریف ملک سے دور نہیں رہیں گے، مریم نواز
عدالت میں پیشی سے قبل مریم نواز مری سے اسلام آباد پہنچیں تو بارہ کہو کے مقام پر ان کے سیکڑوں کارکنان اور حامیوں نے نعروں اور پھولوں کی پتیوں سے ان کا استقبال کیا۔
عدالت میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نائب صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ یہ تو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں معلوم ہو گا کہ پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ہے یا نہیں۔
اے پی سے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ میاں صاحب اے پی سی میں جانے سے منع کریں گے، اپوزیشن جماعتوں کو مل کر حکومت کے خلاف فیصلہ کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کےخلاف نواز شریف کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے، پانچ سالوں میں جو نقصان کرنا تھا دو سال میں کرگئے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی نہیں چاہے گا اس عمر میں ملک سے دور رہے، میاں صاحب کا علاج چل رہا ہے کورونا کی وجہ وہ بھی تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے نواز شریف کی سرجری ملتوی ہوگئی، میری خواہش ہے نواز شریف اپنا علاج کرائیں پاکستان واپس نہ آئیں، ان کی طبیعت جانتے ہوئے یقین سے کہہ سکتی ہو وہ ملک سے دور نہیں رہیں گے۔
مریم نواز کی پیشی کے موقع پر ہائی کورٹ میں سیکیورٹی کے لیے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا تھا، اسلام آباد پولیس کے مطابق 560 اہلکار، 3 ڈی ایس پیز اور 9 انسپکٹر تعینات تھے۔
عدالت کے احاطے میں صرف وکلا اور میڈیا نمائندوں کو داخل ہونے کی اجازت تھی جبکہ پولیس حکام کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس اہلکار بھی گشت پر تھے۔
نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر
خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر
سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔
دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔