پاکستان

بھارتی حکومت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کا حکم

عدالت انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو ایک اور موقع دے رہی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
|

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے دفاع کے لیے وکیل مقرر کرنے کے لیے بھارت کو ایک اور موقع دیتے ہیں، تاکہ کوئی شک نہ رہے۔

عدالت عالیہ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس میں عدالت نے آئندہ سماعت تک بھارتی حکومت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ پاکستان بھارتی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کا کہے۔

کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل کے تقرر کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل میں کہا کہ کلبھوشن یادیو اپیل کا حق نہیں استعمال کرنا چاہتا اور اس حوالے سے بھارتی سفارتخانے کو خط بھی لکھے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست 3 اگست کو سماعت کیلئے مقرر

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کی حکومت پاکستان نے بھارت اور کلبھوشن یادیو کو 6 اگست 2020 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات سے آگاہ کیا تھا لیکن بھارت کی جانب سے ابھی تک وفاقی حکومت کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کلبھوشن یادیو نے بھی قانونی نمائندہ نہ مقرر کرنے کے فیصلے کو تبدیل نہیں کیا جس سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت، پاکستان کو شرمندہ کرنا چاہتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت بھی کلبھوشن یادیو کو قانونی معاونت کے لیے دی گئی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔

سماعت کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھاگ رہا ہے اور اسی وجہ سے ایک مہینہ گزر گیا لیکن کوئی بھی جواب نہیں دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کے اقدامات عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے عین مطابق ہیں، ہمارے پاس 2 ممکنات ہیں، ایک یہ کہ عدالت قانونی نمائندہ مقرر کر دے یا پھر ہم بھارت کے جواب کا انتظار کریں۔

خالد جاوید نے کہا کہ بھارت نے آرڈیننس کے تحت کلبھوشن کو وکیل مقرر کرنے کی پیشکش کا جواب نہیں دیا، پاکستان نے تیسری مرتبہ قونصلر سائی دی مگر کلبھوشن یادیو نے انکار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کیس لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن حکومت پاکستان اب بھی یہی چاہتی ہے کہ بھارت یا کلبھوشن یادیو خود قانونی نمائندہ مقرر کریں۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کا فرض یہ تھا کہ وہ کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف اپیل کے لیے اقدامات کرے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا اگر بھارت اور کلبھوشن قانونی نمائندہ مقرر نہیں کرتے تو کلبھوشن کی اپیل کا درجہ کیا ہوگا؟

جج نے استفسار کیا کہ کیا یہ صحیح نہیں ہوگا کہ بھارت اور کلبھوشن کو ایک اور موقع دیا جائے؟

دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اگر بھارتی حکومت، کلبھوشن یادیو کی اپیل کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنتی تو کیا کارروائی مؤثر ہوگی جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے میں آمادگی ظاہر کی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بھارت، پاکستان کے قانون کے مطابق کارروائی کا حصہ بننے سے انکاری ہے جبکہ بھارت کو دستاویزات حاصل کرنے کے لیے قانونی طریقہ کار پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر بھارت کو تحفظات ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ بھارت کو ایک اور موقع دیتے ہیں، تاکہ کوئی شک نہ رہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کلبھوشن یادیو نے سہولت حاصل کرنے سے انکار کیا ہے، یہ عدالتی کارروائی پر بھی سوالیہ نشان ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت، قونصلر رسائی کا تیسرا موقع بھی استعمال کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کا قانونی نمائندہ مقرر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

تحریری حکم نامہ

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

عبوری حکم نامہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جاری کیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو ایک اور موقع دے رہی ہے، بھارتی ہائی کمیشن نے گزشتہ سماعت کے نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

اس میں کہا گہا کہ شفاف ٹرائل کا حق ہر شخص کا بنیادی حق ہے لہذا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھارتی حکومت، کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرے۔

فیصلے میں عدالت نے آئندہ سماعت تک بھارتی حکومت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کا حکم دیا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ پاکستان بھارتی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کا کہے۔

ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار 6 اکتوبر دوپہر 2 بجے کیس کوسماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

اس سے قبل 23 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 سینئر وکلا کو کلبھوشن یادیو کیس میں عدالتی معاون مقرر کیا تھا اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے کہا تھا کہ بھارتی جاسوس کے دفاع کے لیے وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر بھارتی حکومت کو پیشکش کی جائے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے جولائی میں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

بھارتی حکومت اور اس کے خفیہ ادارے 'را' کی جانب سے کلبھوشن کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کی درخواست سے گریز کیے جانے کے بعد حکومت نے سیکریٹری قانون کے توسط سے درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں سیکریٹری دفاع اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) کو فریق بنایا گیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے وکیل مقرر کرے۔

بھارتی وکیل پاکستان میں دلائل دینے کا حق نہیں رکھتا، اٹارنی جنرل

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ہم نے بھارت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا، دفتر خارجہ اور کلبھوشن یادیو کو بھی فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اب عدالت نے محسوس کیا کہ بھارت کو ایک موقع اور دے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اب کوئی جواز نہیں بنتا۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت نے بیرسٹر شاہنواز نون کو دستاویزات اکٹھے کرنے کے لیے مقرر کیا تھا لیکن بیرسٹر شہنواز نون جب اٹارنی جنرل دفتر آئے تو ان کے پاس کوئی اتھارٹی ہی نہیں تھی۔

خالد جاوید کا کہنا تھا کہ بیرسٹر شاہنواز نون نہیں آئے وہ بھی پاور اٹارنی کے منتطر ہیں کیونکہ ایڈووکیٹس ایکٹ 1961 کے تحت بھارتی وکیل پاکستان میں پریکٹس نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق بھارتی وکیل پاکستان میں دلائل دینے کا حق نہیں رکھتا لہذا بھارت کو پاکستان سے ہی کوئی نمائندہ مقرر کرنا ہوگا۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: ایڈہاک جج کا اختلافی نوٹ میں پاکستان کا دفاع، بھارت پر تنقید

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کا اعلان

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

رواں برس16 جولائی کو پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو کلبھوشن تک رسائی دی تھی تاہم سفارت کاروں نے اس کی ایک نہ سنی اور چلے گئے تھے جس کے اگلے روز کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بھارت کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے جاری توانائی منصوبے تاخیر کا شکار

وزیراعلی سندھ کی وفاقی حکومت سے پورے سندھ کیلئے مدد کی اپیل

پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس: عدالت نے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے