Parenting

کورونا سے متاثر بیشتر بچوں میں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا، تحقیق

بغیر علامات یا علامات والے متاثرہ بچے اوسطاً 17 دن تک وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں اور اس دوران دیگر تک پہنچا سکتے ہیں۔

کورونا وائرس سے متاثر بچوں میں اس کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے اور اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔

یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔

جنوبی کوریا میں کورونا وائرس سے 91 بچوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان میں سے 20 میں بالکل بھی علامات سامنے نہیں آئیں، 18 بچوں میں علامات شروع میں نہیں تھیں مگر بعد میں نمودار ہوگئیں جبکہ 53 میں بیماری کا آغاز علامات سے ہی ہوا۔

مگر ان میں سے بھی بیشتر میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت معمولی یا معتدل تھی۔

جریدے جاما پیڈیاٹرکس میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ صرف ان بچوں کے کورونا ٹیسٹ ہوئے، جن میں علامات نظر آئیں تھیں جبکہ متعدد متاثرہ بچے اس عمل سے گزر نہیں سکے۔

محققین نے تحقیق کے نتائج کے ساتھ جاما پیڈیاٹرکس میں ایک الگ مقالے میں بتایا 'یہ اس تصور کی عکاسی کرتا ہے کہ متاثرہ بچے علامات یا اس کے بغیر بھی توجہ میں نہیں آئے ہوں گے اور انہوں نے اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوں گی اور ممکنہ طور پر اپنی برادری کے اندر وائرس کی گردش میں کردار ادا کیا ہوگا'۔

انہوں نے کہا 'ایسے خطے جہاں فیس ماسک کا استعمال زیادہ نہیں کیا جارہا یا عام افراد ہی کررہے ہیں، بغیر علامات والے مریض کسی برادری کے اندر بیماری کو خاموشی سے پھیلانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں'۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بغیر علامات یا علامات والے متاثرہ بچے اوسطاً 17 دن تک وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں اور اس دوران دیگر تک پہنچا سکتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق بغیر علامات والے اوسطاً 14 دن تک وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں جبکہ یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 50 فیصد سے زیادہ بچے 21 دن بعد بھی وائرس کو پھیلا رہے تھے۔

اس تحقیق پر امریکا کے چلڈرنز نیشنل میڈٰیکل سینٹر کی لیبارٹری میڈیسین کی سربراہ میگن ڈیلانے کا کہنا تھا کہ تحقیق اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ایسے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں علامات نظر نہیں آئیں یا وہ علامات سے پہلے کے دور سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا 'جنوبی کورین تحقیق میں ماہرین یہ جاننے میں کامیاب رہے کہ ہوسکتا ہے کہ بچے گھر میں تندرست ہوں مگر ان میں سے کچھ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں، جن میں سے کچھ میں علامات نظر آتی ہیں جبکہ بیشتر میں ایسا نہیں ہوتا'۔

اس سے قبل اگست کے آخر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے بچوں میں شدید بیماری اور موت کا امکان بہت کم ہوتا ہے تاہم انہیں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔

متعدد برطانوی اداروں کی اس تحقیق میں 19 سال سے کم عمر 651 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں جنوری سے جولائی کے دوران 138 ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں زیرعلاج رہنے والے تمام مریضوں میں سے ان کم عمر مریضوں کی شرح 0.9 فیصد تھی۔

جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ان کم عمر مریضوں میں سے 6 یا ایک فیصد کا ہسپتال میں انتقال ہوا جبکہ دیگر عمر کے کووڈ 19 کے مریضوں میں اس عرصے کے دوران یہ شرح 27 فیصد رہی۔

محققین کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 18 فیصد بچوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑی جبکہ ان میں سب سے عام علامات بخار، کھانسی، دل متلانا یا قے اور سانس لینے میں مشکلات تھیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 فیصد مریضوں میں ملٹی سسٹم انفلیمٹری سینڈروم یا ایم آئی ایس سی کو دیکھا گیا جس کے نتیجے میں جسم کے مختلف حصے پھول جاتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں جن بچوں میں ایم آئی ایس سی کی پیچیدگی سامنے آئی ان کی عمر دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھیں اور دیگر کے مقابلے میں انہیں زیادہ نگہداشت کی ضرورت پڑی۔

ماں کے دودھ سے بچے میں کورونا وائرس منتقل ہوسکتا ہے؟

کورونا وائرس کی وبا و لاک ڈاؤن سے لاکھوں بچوں کی صحت داؤ پر لگ گئی

دوران حمل ماں سے بچے میں کورونا کی منتقلی کے پہلے کیس کی تصدیق