صحت

جینیاتی تبدیلیاں کورونا وائرس کو مزید خطرناک بنارہی ہیں، تحقیق

اس تحقیق میں انکشاف ہوا کہ وائرس میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں یا ایسی اقسام بن رہی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بنارہی ہیں۔

کورونا وائرس نے اپنی ایسی اقسام تیار کرلی ہیں جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہیں۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا جس میں وائرس کے 5 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونسز کا تجزیہ کیا گیا۔

اس تجزیے سے انکشاف ہوا کہ وائرس میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں یا ایسی اقسام بن رہی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بنارہی ہیں۔

یہ اقسام مریضوں میں زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں۔

تاہم تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ یہ نئی اقسام پہلے سے زیادہ جان لیوا یا طبی نتائج کو بدل سکتی ہیں، درحقیقت تمام وائرسز میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آتی ہیں اور ان میں سے اکثر غیرنمایاں ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج آن لائن پری پرنٹ سرور MedRxiv میں شائع ہوئے اور یہ امریکا میں سب سے زیادہ تعداد میں جینیاتی سیکونسز پر ہونے والی تحقیق ہے۔

اس سے قبل ستمبر کے شروع میں برطانیہ میں کورونا وائرس کے جینیاتی سیکونسز کی بڑی تعداد پر ہونے والی تحقیق کے نتائج سامنے آئے تھے اور اس میں بھی بتایا گیا تھا کہ ان اقسام میں اسپائیک پروٹین کی ساخت پہلے سے تبدیل ہے۔

امریکا میں ہونے والی تحقیق میں شامل ہیوسٹن میٹھوڈسٹ ہاسپٹل کے ماہر جیمز میوسر نے بتایا کہ دیگر وائرسز کے مقابلے میں کورونا وائرسز جیسے سارس کوو 2 جینیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جس کی وجہ اس کا نقول بنانے والا پروف ریڈنگ میکنزم ہے۔

مگر روزانہ ہزاروں بلکہ لاکھوں نئے کیسز کے ساتھ اس وائرس کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے مواقع مل رہے ہیں۔

جیمز میوسر نے بتایا کہ ہم نے وائرس کو بہت زیادہ تبدیلیاں فراہم کی ہیں کیونکہ آبادی کا بڑا حصہ اس سے متاثر ہے۔

اس تحقیق میں شکاگو یونیورسٹی، اریگون نیشنل لیبارٹری اور ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہرین بھی شامل تھے۔

اس تحقیق پر نظرثانی کرنے والے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشنز ڈیزیز کے وائرلوجسٹ ڈیوڈ مورینز نے بتایا کہ نتائج سے یہ مضبوط امکان نظر آتا ہے کہ آبادیوں میں پھیلنے کے ساتھ یہ زیادہ متعدی ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے کنٹرول کرنے کی ہماری اہلیت پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تحقیق ہے اور اس کے نتائج کو زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے مگر یہ وائرس ممکنہ طور پر مختلف تبدیلیوں جیسے ماسک پہننے اور سماجی دوری کے اقدامات کے ساتھ اپنی اقسام بنارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیس ماسک پہننے، ہاتھوں کو دھونے اور دیگر احتیاطی تدابیر وائرس کی منتقلی کے خلاف رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں، مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے ساتھ یہ وائرس بھی زیادہ متعدی ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ویکسینز کی تیاری پر اس کے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اور جب لوگوں میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوگی، چاہے ویکسین سے ہو یا بیمار ہونے کے نتیجے میں، اس سے وائرس پر انسانی مدافعتی ردعمل پر حملے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے، مگر اس بات کا امکان ہے جب آبادی کی سطح پر امیونٹی بڑھ جائے گی تو یہ کورونا وائرس اس میں نقب لگانے کا ذریعہ تلاش کرے گا، اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمیں فلو جیسی صورتحال کا سامنا ہوگا، ہم اس وائرس کا تعاقب کریں گے اور وہ اپنی نئی اقسام بنائے گا، جو وائرس کے خلاف مزاحمت کریں گی۔

جونز ہوپکنز یونیورسٹی اپلائیڈ فزکس کے ماہر پیٹر ٹھین لین نے کہا کہ سائنسدانوں کو وائرس پر کام جاری رکھنا اہیے تاکہ جان سکیں کہ نئی تحقیق میں جن اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ واقعی اس کے پھیلاؤ میں اضافے کا باعث بن رہی ہے یا نہیں۔

یونیورسٹی آف میساچوسٹس میڈیکل اسکول کے وائرلوجسٹ جرمی لیوبن نے بھی کورونا وائرس پر کام کیا ہے اور انہوں نے بتایا کہ اس نئی تحقیق میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہمیں مسلسل ہوشیار رہنا ہوگا اور وائرس کی اقسام پر نظر رکھنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔

ٹیکساس میڈیکل سینٹر میں مارچ کے اوائل سے اب تک کورونا وائرس کے 30 ہزار جینوم کے سیکونسز بنائے گئے ہیں اور اس تحقیق میں ان میں سے 5 ہزار 85 کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق میں ثابت ہوا کہ ہیوسٹن کے ارگرد یہ وائرس 2 لہروں میں پھیلا ہے، پہلے یہ امیر اور معمر افراد تک پہنچا اور پھر پھیلا، جبکہ دوسری لہر نوجوانوں اور کم آمدنی والے طبقے میں نظر آئی۔

اس دوسری لہر میں وائرس کی ایک مخصوص قسم 99.9 فیصد کیسز میں نظر آئی اور جو افراد اس قسم سے متاثر ہوئے، ان کی نظام تنفس کی اوپری نالی میں وائرل لوڈ زیادہ تھا، جو اس قسم کے پھیلاؤ کو زیادہ موثر طریقے سے پھیلانے میں مدد فراہم کرنے والا عنصر ہوسکتا ہے۔

حال ہی میں برطانیہ میں 25 ہزار جینومز کے تجزیے پر مبنی تحقیق میں بھی ایسے شواہد دریافت کیے تھے جن سے معلوم ہوا کہ وائرس کی اس قسم نے دیگر اقسام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

سائنسدانوں کو پہلے سے توقع تھی کہ وائرس اپنی ایسی اقسام تیار کرے گا جو اس کے پھیلاؤ کو زیادہ موثر بناسکے کیونکہ اس سے زیادہ نقول بنانے میں مدد ملے گی، مگر ضروری نہیں کہ یہ زیادہ خطرناک بھی ہو، اپنے میزبان کو ختم کرنا وائرس کو دیگر افراد تک پہنچننے میں مدد نہیں دیتا۔

تحقیق میں 285 میوٹیشن سائٹس کو دریافت کیا گیا جس سے اسپائیک پروٹین کے بلڈنگ بلاگ میں تبدیلی آئی، جو کورونا وائرسز کا سب سے اہم حصہ ہے، کیونکہ اس کی مدد سے وہ انسانوں کو متاثر اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

وائرس کے حصوں میں 49 تبدیلیاں دیگر جینوم سیکونسز میں پہلے کبھی نظر نہیں آئی تھیں۔

جیمز میوسر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ کافی ٹھوس ثبوت ہے کہ اسپائیک پروٹین کے مخصوص حصوں میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔

عام طور پر وائرس میں تبدیلیاں اس وقت آتی ہیں جب وہ خلیات کے اندر اپنے جینوم کی نقل بنانے میں غلطیاں کرتا ہے، مگر ہر نیا کیس مزید تبدیلیوں کا امکان بڑھاتا ہے، جس سے یہ امکان بڑھتا ہے کہ ان میں سے ایک قسم اس وائرس کے لیے کارآمد ہوسکتی ہے۔

ڈینگی سے کووڈ 19 کے خلاف کسی قسم کا تحفظ مل سکتا ہے، تحقیق

دوران حمل کورونا وائرس ماں اور بچے میں پیچیدگیوں کا باعث نہیں بنتا، تحقیق

موسم بدلنے پر کھانسی کی شکایت کیا کووڈ کی علامت ہے؟