صحت

خون کے گروپ اور کورونا کے خطرے کے درمیان تعلق کے مزید شواہد دریافت

چند ماہ کے دوران کووڈ 19 اور خون کے مخصوص گروپس کے درمیان تعلق کے حوالے سے کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 اور خون کے مخصوص گروپس کے درمیان تعلق کے حوالے سے کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

اب ایک اور تحقیق میں مزید شواہد پیش کیے گئے ہیں جن میں خون کے گروپ اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس تحقیق میں بھی بتایا گیا کہ بلڈ گروپ اے کے حامل افراد میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

بائیو ٹیکنالوجی کمپنی 23 اینڈ می کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بلڈ او گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس کمپنی کی جانب سے اس حوالے سے کافی عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے جس کے ابتدائی نتائج جون میں جاری کیے گئے تھے، جس میں کہا گیا تھا کہ او گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

اب اس تحقیق کے مزید نتائج آن لائن پری پرنٹ سرور medrxiv پر شائع کیے گئے ہیں جس میں مزید ڈیٹا کے حوالے سے اے، بی اور او بلڈ گروپ اور کووڈ 19 کیسز کی شدت اور خطرے کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس تحقیق کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد کے جینیاتی تجزیے کیے گئے جبکہ جون میں جو نتائج جاری کیے گئے تھے وہ ساڑھے 7 لاکھ افراد کے تجزیے پر مشتمل تھے۔

اب نئے نتائج میں خون کے گروپس اور کووڈ کے خطرے کے درمیان مضبوط تعلق کو دریافت کیا گیا۔

جون میں ابتدائی تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ او بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں 9 سے 18 فیصد کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ وائرس کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں جیسے طبی عملہ اور ضروری کاموں میں مصروف افراد یا ایسے لوگ جو کسی متاثرہ فرد کے رابطے میں رہتے ہیں، تو ان میں او بلڈ گروپ افراد میں وائرس کا خطرہ 13 سے 26 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے دیگر بلڈ گروپس کے خطرے میں کوئی نمایاں فرق دریافت نہیں کیا مگر یہ ضرور بتایا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کا ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق پر اپریل میں کام شروع ہوا تھا اور اس میں شامل رضاکاروں سے سروے میں سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے جیسے کیا انہیں فلو یا نزلہ زکام جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کب ان میں تشخیص ہوئی، علاج ہوا یا کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونا تو نہیں پڑا۔

ان رضاکاروں کی جینیاتی معلومات بھی حاصل کی گئی۔

ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اے بی او جین جو مختلف بلڈ گروپس کا تعین کرتا ہے، بیماری کی تشخیص کا خطرہ کم کرتا ہے۔

او بلڈ گروپ کے مریضوں کی مجموعی تعداد 1.3 فیصد تھی جبکہ اے بلڈ گروپ کے مریضوں کی تعداد 1.4 اور بی اور اے بی بلڈ گروپس کے مریضوں کی تعداد 1.5 فیصد تھی۔

جب محققین نے یہ دیکھا کن افراد میں وائرس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ او بلڈ گروپ میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں میں سب سے کم 3.2 فیصد تھا، اے بلڈ گروپ میں 3.9، بی بلڈ گروپ میں 4 اور اے بی بلڈ گروپ میں 4.1 فیصد تھا۔

اب نئی تحقیق میں اب تک کے نتائج پر نظرثانی کی گئی اور ایسے شواہد دریافت کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کووڈ 19 کا خطرہ زیادہ جبکہ او بلڈ گروپ والے افراد میں کم ہوتا ہے۔

تحقیق مین خون کے گروپ اور بماری کی شدت یا موت کے حوالے سے کوئی تعلق دریافت نہیں ہوسکا۔

اس سے قبل جولائی میں بھی ایک تحقیق بھی بتایا گیا تھا کہ او بلڈ گروپ والے مریضوں میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان اے، بی یا اے بی کے حامل افراد کے مقابلے میں کسی حد تک کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں 13 سو کے قریب کورونا وائرس کے مریضوں کے خون کے گروپس کا جائزہ لیا گیا تھا جو میساچوسٹس کے 5 ہسپتالوں میں مارچ اور اپریل کے دوران داخل ہوئے تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ او بلڈ گروپ کورونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت آنے کا امکان کم کرتا ہے جبکہ بی اور اے بی ٹائپ میں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں اے بلڈ گروپ کا وائرس کی تشخیص کے حوالے سے کوئی لنک سامنے نہیں آسکا۔

مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ او بلڈ گروپ کے مالک افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ مختلف بلڈ گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں فرق ممکنہ طور پر خون میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

جون میں جرمنی اور ناروے کے سائنسدائنوں کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ خون کا ایک مخصوص گروپ بھی اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت میں نمایاں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی سنگین ترین قسم کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں انسانی جینوم میں ایسے 2 مقامات دریافت کیے گئے جو کووڈ 19 کے شکار افراد میں نظام تنفس ناکام کرنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، ان میں سے ایک مقام اس جین میں تھا جو خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کووڈ 19 ہونے کی صورت میں آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

تاہم تحقیق میں شامل جرمنی کی کایل یونیورسٹی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے۔

انہوں نے کہا 'ہم اب تک یہ فرق نہیں کرسکے تھے کہ بلڈ گروپ یا بلڈ گروپ سے منسلک کچھ جینیاتی عناصر بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے کام کے دوران ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد تخمینہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فیصد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے'۔

محققین نے اٹلی اور اسپین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج کووڈ 19 کے 1610 مریضوں کے خون کے نمونے جمع کیے گئے جن کو آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی تھی، خون کے نمونوں میں سے ڈی این اے کو اکٹھا کرکے ایک تیکنیک جینوٹائپنگ کے ذریعے اسکین کیا گیا۔

بعد ازاں ان کا موازنہ ایسے 2205 افراد سے کیا گیا جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے تھے۔

محققین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈی این اے کا بھی تجزیہ کیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ ان میں کسی قسم کا جینیاتی کوڈ مشترکہ تو نہیں۔

مگر محققین اس حوالے سے تاحال پریقین نہیں کہ یہ تعلق کیوں موجود ہے۔

وہ اہم جزو جس کی کمی کورونا وائرس کی سنگین شدت کا باعث بن جائے

کورونا وائرس کا ایک معمہ ماہرین نے حل کرلیا

جونسن اینڈ جونسن کی کورونا ویکسین انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں داخل