پاکستان

مجھے بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کوئی اور چلا رہا ہے، نواز شریف

دوسرے لوگ آئے دن کے ایجنڈے اور بلوں پر ووٹ ڈالنے کے بارے میں ہدایات دیتے ہیں، سابق وزیراعظم کا سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کو ممبران کے ذریعے کوئی اور چلا رہا ہے۔

انہوں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ کوئی اور پارلیمنٹ چلا رہا ہے، دوسرے لوگ آئے دن کے ایجنڈے اور بلوں پر ووٹ ڈالنے کے بارے میں ہدایات دیتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف

خیال رہے اسی طرح کے خیالات کا اظہار سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کیے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی فیصلے جنرل ہیڈ کواٹرز میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔

آج کے اجلاس کے دوران ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ نو آبادیاتی طاقتوں سے آزادی مل گئی اور اب اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بن گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’آج ہم آزاد شہری نہیں ہیں‘۔

مریم نواز کی جانب سے شیئر کی جانے والی ایک اور ویڈیو میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) میں ایک کرنل کو اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران چہرہ چھپاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’چہرہ چھپانے کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ آپ کو بدنما کیا جارہا تھا اسی وجہ سے آپ نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔

مزیدپڑھیں: شہباز شریف اس لیے گرفتار ہوئے کیونکہ وہ عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے، شبلی فراز

نواز شریف نے پارٹی کی طرف سے جاری ایک الگ بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بھائی اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف کی گرفتاری سے رنجیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’تاہم جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمارا عزم کمزور نہیں ہوگا اور پارٹی نے اپنی کوششیں مزید تیز کردی ہیں'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمیں فخر ہے کہ ہماری پارٹی کے کارکنان جرات کے ساتھ موجودہ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، ہمارے بچوں کے ساتھ جاری بد ترین سلوک کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف نے ان اوقات میں بے مثال طاقت اور ہمت کا مظاہرہ کیا اور ایمانداری کے ساتھ قوم کی خدمت کرنے پر اپنے بھائی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

نواز شریف نے کہا کہ شہباز شریف نے پنجاب میں بجلی گھروں کے قیام کے لیے دن رات کام کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ ہمارے تابع نہیں، ضمانت مسترد ہونے پر دیے گئے بیانات توہین عدالت ہے، حکومتی ارکان

نواز شریف نے سرکاری افسران کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے توانائی کی قلت کو دور کرنے میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف مشکل کی صورت میں کبھی نہیں جھکے۔

نواز شریف نے مزید کہا کہ 'سب سے پہلے ہمیں اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے؟ انتخابات میں آرٹی ایس بند ہونے کو تقدیر کا فیصلہ تسلیم کرلیں، 70 برس کے دوران کسی کا حق کسی اور کو تفویض کردینے کو تسلیم کرلینا چایے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں کیا یہ سب ٹھیک ہے، ہمیں مذکورہ مسائل پر دوٹوک انداز میں فیصلہ کرنا چاہیے'۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ 'پارلیمنٹ کو کٹھ پتلی پارلیمنٹ بنا دی اور مجھے نہیں معلوم کہ میں پارلیمنٹ کا ممبر کیوں نہیں ہوں، اللہ نے ہمیشہ کامیابی دی اور پارلیمنٹ کا حصہ رہا اور اب تو پارٹی کی صدارت سے بھی فارغ کردیا گیا'۔

انہوں نے کہا کہ کیا آپ سب کا دل و ماغ مانتا ہے کہ یہ سب تسلیم کرلیا جائے۔

ان کا کہنا تھا دھرنوں کے باوجود ہم نے متعدد منصوبوں کو مکمل کیا۔

نواز شریف نے کہا کہ 'مجھے ایک انتہائی قابل شخص نے بتایا کہ کمائی کے باوجود لوگ بجلی و گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں، چینی اور آٹا کی قیمتوں غیرمعمولی بڑھ چکی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے چینی کی قیمت بڑھنے نہیں دی جس پر ان کی تعریف کرنی چاہیے، جب ہماری حکومت ختم ہوئی تب چینی فی کلو 50 روپے تھی اور اب اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوچکا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ 'تحریک انصاف کے دھرنوں کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام نے پیغام بھیجا کہ میں استعفیٰ دے دوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ظہیر الاسلام کا آدھی رات کو پیغام ملا کہ استعفیٰ دے دو ورنہ نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ، مارشل لا بھی لگ سکتا ہے'۔

سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ 'ظہیر الاسلام کا پیغام ملنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ استعفیٰ نہیں دوں گا جو گا ہوجائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے غلامی قبول نہیں ہے یہ زمانہ دیکھے گا'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'اب ہم ذلت کی زندگی برداشت نہیں کریں گے کیونکہ میں نے فیصلہ کرلیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'قوم اس وقت مشکل میں ہے کیونکہ ہم غیرجمہوری فیصلوں کے آگے کھڑے نہیں ہوتے'۔

انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'وہ نااہل ہیں جنہیں حکومت کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے، انہیں معلوم ہی نہیں کہ حکومت کرنا کیسے کہتے ہیں'۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ 'اس بندے کو حکومت میں لا کر پشیمان ہوں گے کہ لائے بھی ہیں تو کس بندے کو لائے ہیں، اب آپ لائے ہیں تو آپ کو ہی جواب دینا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس بندے کو عوام پر مسلط کردیا تو قصوروار تو سب سے بڑے آپ ہیں'۔

نواز شریف نے کہا کہ یہ بندہ تو قصوروار ہے ہی لیکن اس سے بڑے قصوروار آپ ہیں، آپ کو جواب دینا ہوگا اور ہم جواب لیں گے۔

انہوں نے اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے، تما فورم سے بھرپور اقدام کرنا چاہیے۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹوئٹر پر کہا کہ مذکورہ اجلاس میں شہباز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے اور موجودہ سیاسی منظر نامے کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔

عمران خان کو وزیر اعظم تسلیم کر لینا قومی نقصان کے مترادف ہے، مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کے دوران کہا کہ عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کرلینا قومی نقصان کے مترادف ہے اور ان کے خلاف مداخلت کے عمل کو روکنا ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جب ایک کٹھ پتلی وزیراعظم کو 22 کروڑ لوگوں پر مسلط کردیا جائے تو وہ متعدد کٹھ پتلی وزرا کو جنم دیتا ہے'۔

مریم نواز نے کہا کہ 'اداروں کا جتنا استحصال اور بدنامی عمران خان کی وجہ سے ہوئی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی ادارہ ان کے قہر سے نہیں بچا، جن کو وہ کہتا ہے کہ ایک پیج پر ہے، میں تو یہ کہتی ہوں کہ اگر 72 سال سے ایک پیج پر ہونے سے یہ معاملات جنم لیتے ہیں تو اللہ کرے وہ کبھی ایک پیج پر نہ ہوں۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ 'عمران خان نے فوج، نیب، ایف آئی اے، عدلیہ غرض تمام ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان اٹھا دیا'۔

مریم نواز نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے نواز شریف کو جس عدلیہ نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی اسی عدلیہ نے مفرور قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کی زیرقیادت حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعلقات حالیہ دنوں میں مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔

اپوزیشن نے اے پی سی کے انعقاد کے بعد حکومت کے خلاف ایک وسیع و عریض تحریک کا اعلان کیا تھا اور سیاست میں فوج کی مداخلت پر شدید تنقید کی تھی۔

مزیدپڑھیں: شہباز شریف کو نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے پر گرفتار کیا گیا، مریم نواز

21 ستمبر کو ہونے والی اے پی سی کے بعد سول ملٹری اجلاسوں اور ملاقاتوں سے متعلق متعدد انکشافات سامنے آئے تھے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور انٹر سروسز انٹلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کثیر الجہتی کانفرنس سے چند روز قبل حزب اختلاف کی اہم شخصیات سے ایک میٹنگ کی تھی اور انہیں سیاسی امور میں فوج کو گھسیٹنے سے گریز کرنے کی صلاح دی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر نائب صدر مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کی تھی جس میں صحافی کی جانب سے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں سیاسی رہنماؤں کے لیے عشائیے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے اس عشائیے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے نواز شریف کے کسی نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات کی بھی تردید کی تھی۔

بعدازاں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی تھی کہ سابق گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کیں۔

مزیدپڑھیں: عسکری قیادت سے مسلم لیگ (ن) کی ایک نہیں 2 ملاقاتیں ہوئیں، شیخ رشید

نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے'۔

ایک تھا چنیسر: کہ جس کا جیون دُکھ ہی دُکھ ہے۔۔۔!

بابری مسجد کا فیصلہ انتہا پسند بھارتی نظام عدل کی عکاسی کرتا ہے، دفتر خارجہ

لوگوں کو گالیاں دے کر قہقہے لگانے والے طوطے