پاکستان

شوگر ملز کا 'اعلیٰ سوکروز' کی فصل پیدا کرنے والے گنے کے کاشتکاروں کو اربوں روپے دینے سے انکار

معیاری پریمیئم کو 1980 کی دہائی کے اوائل میں کاشت کاروں کو بہتر گنا کاشت کرنے کی ترغیب دینے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

لاہور: جنوبی پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے گنے کے کاشتکاروں کو شوگر ملز سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے کیونکہ صوبائی حکومتیں 8.7 فیصد سے زائد سوکروز مواد والے گنوں پر کٹائی کے وقت ’معیاری پریمیئم‘ دینے کے لیے ملز مالکان کو پابند کرنے کا قانون نافذ کرنے میں ناکام ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں کہا گیا ہے کہ ’صوبائی حکومت کرشنگ سیزن کے اختتام پر فیکٹریوں کو معیاری پریمیم ادا کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے جس کی قیمت سوکروز ریکوری کے تناسب کے حساب سے صوبائی حکومت طے کرسکتی ہے‘۔

معیاری پریمیم 1980 کی دہائی کے اوائل میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ کاشت کاروں کو سوکروز مواد کو بڑھانے کے لیے مختلف اقسام میں سے بہتر گنا کاشت کرنے کی ترغیب دی جائے۔

مزید پڑھیں: گنے کی قیمت کم ہے تو کسان گنا اگاتے ہی کیوں ہیں؟

معیاری پریمیم متعارف کرانے کے پیچھے دوسری وجہ یہ تھی کہ گنے کی قیمت میں انصاف کی ضمانت دی جاسکے کہ کاشتکاروں کو ان کی فصل کے سوکروز مواد کی بنیاد پر قیمت ملے نہ کہ صرف اس کے وزن کی بنیاد پر۔

واضح رہے کہ کوالٹی پریمیم کسانوں کو 'اعلی سوکروز' مواد کے لیے دی جانے والی اضافی قیمت ہے۔

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک کاشت کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’گنے کی کم سے کم قیمت صوبائی حکومتوں نے بیس سوکروز مواد کی سطح کی بنیاد پر طے کی ہے لہذا اس کی وجہ سے بیس سطح کے سوکروز کے مواد سے زیادہ بہتر اقسام کی کاشت کرنے والے کسانوں کو ان کی بہتر کاشت کے بدلے میں زیادہ معاوضہ دیا جانا چاہیے‘۔

ان کے مطابق سندھ اور جنوبی پنجاب میں شوگر ملز 8.7 فیصد کی بنیادی سطح کے خلاف 11.5-12 فیصد تک سوکروز حاصل کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گنے کی قیمت سے متعلق کیس: ’لگتا ہے سندھ حکومت مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتی‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ (ملرز) گنے کی اتنی ہی مقدار سے بہت زیادہ چینی بناسکتے ہیں جو دیگر ملز بیس لیول کے گنوں سے بنارہے ہیں لیکن اس کے لیے وہ ہمیں ادائیگی نہیں کررہے ہیں، اگر ہمیں اس کا معاوضہ نہیں ملتا ہے تو ہمیں فصل پر زیادہ خرچ کرنے اور زیادہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘

بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے ایک اور کسان نے کہا کہ مارچ 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے باوجود نہ ہی پنجاب اور نہ ہی سندھ معیاری پریمیم قانون نافذ کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی سپریم کورٹ کے بینچ نے معیاری پریمیم کو آئینی اور قانونی طور پر قابل نفاذ قرار دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’اس (معیاری پریمیئم) سے انکار غیر منصفانہ ہوگا کیونکہ یہ اعلی سطح کے سوکروز مواد کو حاصل کرنے میں کاشتکاروں کی شراکت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جس کا براہ راست نتیجہ اعلی چینی کی پیداوار میں ہوتا ہے‘۔

ژوب، دیامر میں چلغوزہ پروسیسنگ یونٹ قائم

خیبر پختونخوا کی حکومت 5 شہروں میں انفرااسٹرکچر کیلئے 14 کروڑ ڈالر سے زائد قرض کی خواہاں

جمہوری سیاسی کارکنوں کے لیے 'باغی' کا لیبل ایک اعزاز ہے، اپوزیشن