پاکستان

نواز شریف کے خلاف مقدمہ ریاست نہیں ایک شہری کی درخواست پر درج کیا، پولیس

شہری کی درخواست پر شاہدرہ پولیس نے تحریر کے مطابق جو قانون کی دفعات بنتی تھیں ان کے تحت مقدمہ درج کیا، ترجمان لاہور پولیس
|

لاہور پولیس نے وضاحت کی ہے کہ تھانہ شاہدرہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف و دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف درج ہونے والا مقدمہ ریاست یا کسی ریاستی ادارے کی جانب سے نہیں بلکہ ایک نجی شہری بدر رشید کی درخواست پر درج کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: لاہور: نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔

ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی۔

اس ایف آئی آر میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔

تاہم اب اس ایف آئی آر سے متعلق ترجمان لاہور پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میڈیا میں اس مقدمے کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں حالانکہ درحقیقت یہ مقدمہ ایک شہری بدر رشید کی درخواست پر درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم نے نواز شریف کیخلاف غداری کے مقدمے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا'

بیان میں کہا گیا کہ شہری کی درخواست پر حسب ضابطہ قانونی کارروائی کرتے ہوئے شاہدرہ پولیس نے تحریر کے مطابق جو قانون کی دفعات بنتی تھیں ان کے تحت مقدمہ درج کیا۔

ترجمان کے مطابق اس مقدمے کی تمام پہلوؤں اور قانونی تقاضوں کو مدنظر میرٹ پر تفتیش کی جارہی ہے۔

کیپٹل سٹی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران جس فرد یا افراد کے خلاف قابل دست اندازی جرم سرزد ہونے کے ثبوت ملے تو صرف انہی افراد کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مقدمے میں انصاف کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کا ضمانت قبل از گرفتاری نہ لینے کا اعلان

ادھر مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز ہی اس مقدمے کے درج ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا تھا کہ ان کے رہنما بغاوت کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری نہیں لیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم ضمانت قبل از گرفتاری حاصل نہیں کریں گے، اگر پی ٹی آئی حکومت میں جرات ہے تو وہ آگے آئے اور ہمیں گرفتار کرے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی وزرا 'نامعلوم اور غیر سنجیدہ ایف آئی آرز' کے پیچھے چھپنا بند کریں اور اپنے ناموں سے یہی درج کروائیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایف آئی آر پاکستان کی تاریخ کی کتابوں میں ایک اور سیاہ دھبہ ہے اور ملک کی تاریخ میں بغاوت کے الزامات میں اس کی منفرد پوزیشن ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں وفاقی وزرا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بدر رشید کا سہارا نہ لیں اور اپنے ناموں سے مقدمہ درج کرائیں تاکہ لوگ ان کی حقیقت جان سکیں۔'

وزیراعظم کا ناپسندیدگی کا اظہار

قبل ازیں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف اور دیگر کے خلاف غداری کے مقدمے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سینئر صحافی حامد میر کے ٹوئٹ پر ردعمل میں ٹوئٹ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 'وزیر اعظم کو اس ایف آئی آر کا کوئی علم نہیں تھا، جب میں ان کے علم میں لایا کہ اس طرح ایک ایف آئی آر ہوئی ہے جس میں نواز شریف اور دیگر لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے تو انہوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔'

وفاقی وزیر نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے کسی نے کارروائی ڈالنے کے لیے ایسا کیا ہو، دیکھتے ہیں'۔

خیال رہے کہ 20 ستمبر 2020 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے طویل عرصے بعد اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں حکومت اور اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری جدوجہد وزیراعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ 2018 کے انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔

اس کے بعد وہ کئی دفعہ اپنی تقاریر میں حکومت، فوج اور پاکستان کے دیگر اداروں پر سخت تنقید کرتے آرہے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان میں پولیو وائرس کا چوتھا کیس سامنے آگیا

وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

ایران کو لاپتا ایف بی آئی ایجنٹ کے اہلخانہ کو 1.4 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم