نقطہ نظر

زیادہ اہم کیا؟ جزیروں پر تعمیرات یا قدرت کی جانب سے دیے گئے انعامات؟

یہ ہرگز دانشمندی نہیں کہ بغیر کسی سے پوچھے، کمیونٹی کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگائے بغیر اتنے بڑے پراجیکٹ کا اعلان کردیا جائے

زیادہ اہم کیا؟ جزیروں پر تعمیرات یا قدرت کی جانب سے دیے گئے انعامات؟

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

کچھ کہانیاں، کچھ باتیں اور کچھ حقائق ان الجھی ہوئی گتھیوں کی طرح ہوتے ہیں جو کبھی نہیں سلجھتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ چونکہ ہمیں وہ سمجھ نہیں آتے اس لیے ان کو سلجھانا ممکن نہیں ہوتا، مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ہمیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ یہ پڑی ہوئی گانٹھ کو اس طرح کھولا جاسکتا ہے، مگر ہم کچھ مجبوریوں یا محرومیوں کی وجہ سے ان کو کھولنا نہیں چاہتے، کیونکہ ہماری ترجیحات میں ان کو سلجھانا یا کھولنا ہوتا ہی نہیں ہے۔

آپ اگر، کورنگی کریک کے کنارے آباد ماہی گیروں کی ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والی بستی، ابراہیم حیدری سے کشتی میں نکل پڑیں تو آدھے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد آپ ’ڈنگی‘ جزیرے پر پہنچ جائیں گے۔ یہ 4 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک شاندار جزیرہ ہے۔ چونکہ یہ ایک آدھی گولائی کی شکل [(] میں ہے اس لیے اس کو ڈنگی (آدھی گولائی) کہا جاتا ہے۔

اس جزیرے کے جنوب میں ’بھنڈاڑ‘ (جس کا نام تبدیل ہوکر ’بنڈل‘ ہوگیا ہے) ہے۔ یہ دونوں کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل جزیرے ہیں۔ یہاں ریت کے ٹیلوں کے علاوہ تمر کے جنگلات بھی ہیں۔ یہ فطرت کی شاندار رنگا رنگی سے بھرپور اور خوبصورت جزیرے ہیں۔ یہی خوبصورتی اب ان جزیروں پر ایک تیز تلوار کی طرح لٹکی ہوئی ہے۔

وہاں صدیوں سے چرتے اونٹوں کو تو شاید ابھی یہ محسوس بھی نہیں ہوا کہ ان کی خوراک کے لیے فطرت کے دیے ہوئے راستے شاید اب بند ہوجائیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے مزے سے تیمر کو اپنی خوراک بنا رہے ہیں۔

یہ جزیرے ان دنوں میں بھی لوگوں سے سج جاتے ہیں جب یہاں میلہ لگتا ہے، یا وہ دن جب ماہی گیر مچھلی اور جھینگوں کا شکار کرکے یہاں خشک کرتے ہیں۔

2006ء سے پہلے یہاں ماہی گیروں کی بستیاں بھی تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2006ء میں، مَیں وہاں گیا تھا۔ تب وہاں بسے ماہی گیروں سے بڑی تفصیلی بات چیت ہوئی تھی اور کچھ وقت کے بعد ترقی کے نام پر ان غریب اور بے بس ماہی گیروں کو وہاں سے اٹھا دیا گیا تھا۔ اب وہاں کسی ماہی گیر کی جھونپڑی نہیں ہے۔

'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020' 2 ستمبر کو جاری کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر موجود جزائر کی ترقی کے لیے ایک 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' قائم کردی گئی ہے، جس کی ابتدا وہ سندھ کے ساحل پر موجود 2 جزیروں بھنڈاڑ اور ڈنگی سے کرنا چاہتی ہے۔

اس حوالہ سے اب تک جو صورتحال ہے اس میں سندھ حکومت خاموش نظر آتی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالہ سے جو بیان آئے ہیں، ان کے مطابق یہ آرڈیننس غیر قانونی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہے کہ جزیروں پر یہ تعمیرات مقامی لوگوں کی ترقی کے لیے ہے۔ اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جزیرے جس کی بھی ملکیت بنیں، مگر ان پر ایک نیا شہر تعمیر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ان جزیروں کا تذکرہ سب سے پہلے 2006ء میں سُننے کو ملا جب اس وقت کی حکومت ان جزیروں پر دنیا کے جدید شہر بسانا چاہتی تھی اور اس کے لیے اس نے عرب امارات کے ایک تعمیراتی گروپ ’ایمار‘ سے بات بھی کرلی تھی اور وہ گروپ یہاں ان جزیروں پر تعمیرات کے لیے تیار ہوگیا تھا۔ مگر ماہی گیروں، میڈیا، ماحولیات کے اداروں جیسے: ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے تحفظات اور ان کی رپورٹس کی وجہ سے اس پراجیکٹ پر عمل نہ ہوسکا۔

اس کے بعد دوبارہ اس تنازع نے 2013ء میں سر اٹھایا۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت یہاں کثیر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی تھی اور اس حوالے سے 45 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہونے جارہا تھا، لیکن سول سوسائٹی اور صوبائی حکومت کی جانب سے آنے والے دباؤ نے ایک بار پھر ان جزیروں کو بچالیا۔ آج کل ایک بار پھر 12 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ان جزیروں پر تعمیرات کی باتیں ہو رہی ہے۔

جب دنیا میں، ماحولیات کے حوالے سے ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ یعنی ایک طرف گلیشیئروں کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر کا پانی بڑھ رہا ہے، موسموں کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے، کئی ملک ڈیموں کو توڑ رہے ہیں اور درخت لگانے کے ساتھ تمر کے جنگلات کو اُگایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کئی ڈوبتے ہوئے جزیروں کو بچانے کے لیے بڑی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں، بلکہ خود وزیرِاعظم ملین درخت لگانے کا اعلان کرتے ہیں اور سندھ حکومت انڈس ڈیلٹا کے مڈفلیٹس میں رکارڈ تمر کے درخت لگانے پر بہت خوش ہے، تو ایسے حالات میں، جزیروں، خاص کر ان جزیروں پر تعمیرات کے اسباب کیا ہیں؟

وہ بھی ایسے جزیروں پر جو ایک تو انڈس ڈیلٹا میں ہیں اور انڈس ڈیلٹا ’رامسر کنوینشن‘ کے تحت رامسر سائٹ ہے۔ جس پر حکومتِ پاکستان کے دستخط ہیں۔

یہ رامسری کنوینشن کیا ہے

1971ء میں ایران کے شہر ’رامسر‘ میں ایک ماحولیات کے حوالہ سے سیمینار ہوا تھا۔ جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ، دنیا میں جہاں جہاں ماحولیاتی طور پر زرخیز جھیلیں اور علاقے ہوں گے، ادارے ان کے سروے کریں گے، اور اس سروے پر پورا اترنے کے بعد اسے رامسر سائٹ قرار دیا جائے گا۔ ایسا ہونے کے بعد پھر اس کا تحفظ وہاں کی حکومت کے ذمے ہوگا۔

اس کے علاوہ اور دوسری انتہائی سنجیدہ بات یہ ہے کہ کراچی کو سونامی سے بچانے کے لیے فطرت نے، ان جزیروں اور تمر کی صورت میں ایک دیوار بنائی ہوئی ہے۔ اس کو برباد کرنے کے پیچھے ہم آخر کیوں پڑے ہوئے ہیں؟

میں نے یہاں کے جزیروں اور کراچی پر تحقیقی کام کرنے والے محترم گل حسن کلمتی صاحب سے جب اس حوالے سے بات کی تو جواب آیا: ’ڈنگی اور بھنڈاڑ انڈس ڈیلٹا کے اندر موجود چھوٹے بڑے 300 کے قریب جزیروں تک پہنچنے کے لیے ایک دروازے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعمیرات ہونے سے، یہاں پر سندھ کے لوگوں اور ماہی گیروں کا جو حق ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ سمندری کنارہ گند کا ڈھیر بن جائے گا اور سمندر میں جانے کے لیے ماہی گیروں کے جو راستے ہیں وہ بند ہوجائیں گے۔ یہ جزائر آبی جیوت، خاص کر جھینگوں اور مچھلیوں کے لیے نرسریاں ہیں، جو بالکل برباد ہو جائیں گی۔ اس پوری صورتحال کا اثر یہاں کے ماہی گیروں پر پڑے گا اور وہ معاشی طور پر برباد ہوجائیں گے۔ ان جزیروں پر تمر کے جنگلات ہیں، جو تیز ہوا اور سمندر میں بڑھتے ہوئے پانی کو روکتے ہیں، اور جب یہ نہیں رہیں گے تو ان جنگلوں میں بسنے والے پرندے اور جنگلی حیات نابود ہوجائیں گی۔ پھر ساتھ میں کراچی شہر کے قدرتی تحفظ والی تمر کی دیوار میں بھی دراڑ پڑ جائے گی۔ جس سے ماحول پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، اور یہ ماحولیات کے ایکٹ 1997ء کے زمرے میں آتا ہے‘۔

میں نے بھنڈاڑ پر سالانہ لگنے والے ’یوسف شاہ‘ کے میلے سے متعلق Trust for Conservation of Coastal Resources (TCCR) Karachi کی زبیدہ بروانی سے بات کی تو ان کے جواب نے مجھ پر ماحولیات کے حوالے سے کچھ نئے راز کھول دیے۔

انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر، ریڑھی میان کے قریب جو مچک جزیرہ ہے یا پھٹی کریک پر یہ دونوں جزیرے ہیں، یہ جزیروں کا ایک Complex ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے جزیرے بھی ہیں، جیسے مچک اور بھنڈاڑ جزیرے جہاں ثقافتی اور تاریخی ایونٹ ہوتے ہیں۔ یہاں یوسف شاہ کے مزار پر ہر برس بڑا میلہ لگتا ہے۔ جہاں ماہی گیر اپنے خاندانوں سمیت آتے ہیں اور 2، 3 راتیں رہتے ہیں۔ درگاہ پر چادریں چڑھاتے ہیں، لوک گیت گائے جاتے ہیں اور خیرات بانٹی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہمارے آباؤ اجداد کی نشانیاں ہیں اور ساتھ میں یہ جزیرے ماہی گیروں کے ذریعہ معاش کے مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2006ء سے پہلے تو یہاں خاندان آباد تھے لیکن جب پرویز مشرف کے زمانے میں یہاں شہر آباد کرنے کی باتیں ہوئیں تو ان بچارے ماہی گیروں کو یہاں سے زبردستی بھگا دیا گیا۔ یہ جزیرے ماہی گیروں کے ہیں۔ اب ان کو وہاں چھوڑا نہیں جاتا اور ساتھ میں وہاں کی اپنی ایک ماحولیاتی حیثیت ہے۔ اب ہم اپنے اثاثوں کو برباد کرکے کونسی ترقی کرنا چاہتے ہیں؟‘

زبیدہ بروانی صاحبہ چونکہ ابراہیم حیدری کی ہیں تو بات کرتے ہوئے اُن کی آواز میں جذباتی کیفیت نمایاں تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ جو ان دنوں صوبوں اور وفاق میں ایک کھنچاؤ کی صورتحال ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس فیصلہ میں ان لوگوں کی رائے شامل نہیں ہے جن پر اس تعمیرات کی وجہ سے اثرات پڑنے والے ہیں‘۔

اس معاملے میں ماحولیات پر کام کرنے والی محترمہ عافیہ سلام نے بھی تفصیلی جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ترقی کا کوئی مخالف نہیں ہوتا۔ اگر پائیدار اور ماحول دوست ترقی ہوگی تو اس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرے گا۔ اصل میں یہ جو جزائز ہیں وہ رامسر سائٹ میں آتے ہیں جن کا تحفظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ وہاں کی جو آبی اور جنگلی حیات ہے، جو مینگرووز ہیں ان کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ اب جس طرح کی تعمیرات کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان کی وجہ سے یہاں ان جزیروں کی اہم اور نازک ماحولیات کو انتہائی شدید خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح کی تعمیرات کے لیے 2 بار پہلے بھی کوشش ہوچکی ہے، لیکن ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اندویشوں پر مشتمل تحقیقی رپورٹس میں بتایا کہ اس طرح کے پراجیکٹس سے کس طرح ماحولیاتی نقصان ہوسکتا ہے۔ یوں یہ تعمیرات روک دی گئیں۔ اب معلوم نہیں کہ ایسا کیا ہوا جس کے بعد اچانک ان پر ایک بار پھر وہی دھن سوار ہوگئی کہ یہاں تعمیرات کی جائیں گی اور شہر آباد کریں گے۔ مگر ان جزیروں کی وجہ سے جو ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے ان کی فلاح اور ان کے ذریعہ معاش کے لیے ان کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی جو ساحلی پٹی پر اسی طرح کی تعمیرات ہوئی ہیں، کلب بنے ہیں، وہاں بھی یہ ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے تھے، لیکن اب وہاں ماہی گیروں کو آنے بھی نہیں دیا جاتا۔ تو یہ کوئی دانشمندی والا کام نہیں ہے کہ بغیر کسی سے پوچھے، کمیونٹی کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگائے بغیر اتنے بڑے پراجیکٹ کا اعلان کردیا جائے‘۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق ’اس جزیرے پر 3 ہزار 445 ہیکٹرز پر تمر کے جنگلات موجود ہیں اور ماحولیاتی حوالے سے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں 50 سے زائد مقامی پرندوں کی نسلیں پرورش پاتی ہیں۔ ساتھ میں 50 سے زائد پودوں کی قسمیں، دنیا کے نایاب سمندری کچھوے اور سمندری سانپ بھی یہاں پائے جاتے ہیں، جبکہ تمر کے یہ جنگل جاڑوں کے موسم میں انڈس فلائے وے زون کے راستے ہزاروں مہمان پرندوں کے بھی مسکن بنتے ہیں۔

2008ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ایک لاکھ 60 ہزار مہمان پرندے یہاں آئے تھے جبکہ ایک سو کے قریب مچھلیوں کی اقسام ان تمر کے جڑوں میں اپنے انڈے دیتی ہیں اور ساتھ میں یہ جزیرے انڈس ڈیلٹا میں ہیں جو بین الاقوامی رامسر سائٹ میں شامل ہے اور ان آب گاہوں کا تحفظ ضروری بن جاتا ہے۔

اس ماحولیاتی بربادی کا سب سے زیادہ نقصان کسی کو ہوگا تو وہ یقیناً ماہی گیر ہوں گے۔ پاکستان فشر فوک فورم سے تعلق رکھنے والے محمد علی شاہ صاحب کے مطابق ’ان جزیروں پر تعمیر سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہوں گے، کیونکہ یہ ماہی گیری کے لیے کورنگی اور پھٹی کریک سے گزر کر سمندر تک پہنچتے ہیں۔ ان تعمیرات کے بعد یہ راستے بند ہوجائیں گے اور ان کا روزگار شدید متاثر ہوگا‘۔

ہمارے سامنے، محترم نصیر میمن کی 2006ء کی رپورٹ بھی ہے جس کے مطابق ’جزیروں پر جدید تعمیرات کے بعد خدشہ ہے کہ ساحلوں پر موجود چھوٹے بڑے گاؤں کے لاکھوں مقامی لوگ اس علاقے میں آنے جانے سے محروم کردیے جائیں گے۔ ایک اور اندازے کے مطابق کراچی اور ٹھٹہ کے ساحلوں پر آباد ماہی گیروں کی 4 ہزار کشتیوں کی سمندر کی جانب آمد و رفت ختم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ڈر ہے کہ ماہی گیروں کی سب سے بڑی آبادی ابراہیم حیدری، جہاں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ماہی گیر آباد ہیں، وہ بھی بُری طرح متاثر ہوگی۔ ان ماہی گیروں کا سمندر تک جانے کا راستہ، ذرائع روزگار اور مارکیٹ تک رسائی سب ختم ہوسکتی ہے‘۔

اگر آپ کو یاد ہو، تو 2017ء میں میرا تمروں اور کراچی کے حوالہ سے ایک بلاگ لگا تھا۔ جس میں یہ تحریر تھا کہ سمندر کے ان کناروں پر سیکڑوں ماہی گیروں کی بستیاں آباد ہیں جو صدیوں سے اپنے ایک ثقافتی و تاریخی رنگ میں جیتی آئی ہیں۔ وہ جزیروں پر لگنے والے میلوں پر بھی جاتے ہیں، شادیوں اور خوشیوں کے موقعوں پر کھیل تماشے بھی کرتے ہیں۔ مطلب وہ اپنے پانی سے وابستہ کلچر میں جیتے ہیں۔

یہاں ان جزیروں پر پانی کے پرندوں کی افزائش نسل کی ایک دنیا آباد ہے۔ تمر کے جنگل ہیں جن میں ہلکے پیلے رنگ کے پھول اگتے ہیں اور تمر کے شہد کی اپنی طبّی اہمیت ہے۔ دنیا بھر میں تمر کے جنگلات کا خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ اپنے پھیپھڑے کون کھونا چاہتا ہے، لیکن لگتا ہے کہ ہم کھونا چاہتے ہیں اور اس کی بربادی پر تلے ہوئے ہیں۔ شاید ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حالت دمے کے اس مریض جیسی ہوجائے جو جسم کو آکسیجن پہنچانے کے لیے بڑی بڑی سانسیں لے کر اپنے پھیپھڑوں میں درد انڈیل دیتا ہے مگر اس کا ہانپنا کم نہیں ہوتا۔

1985ء میں 2 لاکھ 28 ہزار 812 ہیکٹر پر مینگرووز کے خوبصورت اور جنگلی حیات سے بھرپور جنگل تھے وہ اب 74 ہزار ہیکٹرز تک رہ گئے ہیں، پہلے یہاں تمر کی 8 اقسام ہوتی تھیں مگر چونکہ اب میٹھے پانی کی آمد ہو نہیں رہی اس لیے ان میں سے 5 اقسام یہاں زندگی کی جنگ ہار گئیں، باقی 3 اقسام ہیں جو یہاں کے ماحول میں جی سکیں۔ 29 برسوں میں ہم نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تمر کے جنگلوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

آپ چند لمحے نکال کر ذرا یہ تو غور کریں کہ ہم نے کیا برباد کردیا ہے؟

یہ تمر کے جنگلات، جنگلی حیات، یہ حیاتیاتی رنگا رنگی ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ سب فطرت نے ہمیں عطا کیا ہے۔ اگر خدانخواستہ آنے والے برسوں میں سونامی آئی، تو اسے فطری طور پر روکنے والے تمر کے یہ جنگلات ہی اسے روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ سمندری لہروں کی طاقت کو بہت حد تک کمزور کردے گی اور نقصان بہت کم ہوگا۔ خاص کر اس مقابلے میں جہاں تمر نہیں ہے۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔