لائف اسٹائل

آسکر ایوارڈ جیتنے والی واحد ہارر فلم جو اب بھی لوگوں کو دہشت زدہ کرتی ہے

فلم کی ریلیز کو 30 سال مکمل ہونے والے ہیں، مگر اب تک یہ تھرلر ماسٹرپیس ناظرین کو دہشت زدہ کررہی ہے۔

دنیائے فلم کے سب سے بڑے اکیڈمی المعروف آسکر ایوارڈز کو اب 9 دہائیوں سے زائد عرصہ ہوچکا ہے مگر کیا آپ یقین کریں گے اتنے عرصے میں صرف ایک ہارر فلم ہی اس کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کرسکی ہے؟

جی ہاں اب تک آسکر ایوارڈز کی 92 سالہ تاریخ میں محض صرف ایک ہارر فلم ہی بہترین فلم کا آسکر اپنے نام کرسکی جو نوعیت کے اعتبار سے ماورائی طاقتوں کے گرد نہیں بلکہ نفسیاتی خوف جگانے والی کہانی پر مبنی تھی۔

دی سائلنس آف دی لیمبز فروری 1991 میں ریلیز ہوئی تھی یعنی اب اس کی ریلیز کو 30 سال مکمل ہونے والے ہیں، مگر اب تک یہ تھرلر ماسٹرپیس ناظرین کو دہشت زدہ کررہی ہے، کیونکہ انتھونی ہوپکنز کے جوڈی فوسٹر کے ساتھ خطرناک ذہنی کھیل کھیلنے کا عمل ہڈیوں میں سردلہر دوڑا دیتا ہے۔

اس فلم کو اب بھی دنیا کی بہترین فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے، امریکن فلم انسٹیٹوٹ نے اسے ہر دور کی 5 بااثر ترین تھرلر فلم قرار دیا تھا جبکہ مرکزی کرداروں کو سب سے بہترین ہیروئین اور ولن قرار دیا گیا۔

ڈائریکٹر جوناتھن ڈیمی کی اس فلم کو 1992 کے آسکر ایوارڈز کے لیے 7 شعبوں میں نامزد کیا گیا تھا اور 5 بڑے اعزازات یعنی بہترین فلم، بہترین ڈائریکٹر، بہترین اداکار، بہترین اداکارہ اور بہترین اڈاپٹڈ اسکرپٹ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔

اس فلم کی کہانی 1988 کے اسی نام کے ناول سے لی گئی تھی جو تھامس ہیرس نے تحریر کیا تھا۔

پلاٹ

انتھونی ہوپکنز نے ہینی بال لیکٹر نے انسانوں کو کھانے والے ایک ماہر نفسیات و سیریل کلر کا کردار ادا کیا جو جیل میں قید ہوتا ہے۔

کلریس اسٹارلنگ کا کردار جوڈی فاسٹر نے ادا کیا جو ایف بی آئی ایجنٹ ہوتی ہیں اور انہیں ہینی بال لیکٹر کا انٹرویو کرنے کا کام ملتا ہے تاکہ اس کی مدد سے ایک اور سیریل کلر بفالو بل کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے جو نوجوان خواتین کو قتل کرکے ان کی جلد جسم سے الگ کردیتا تھا۔

وقت کے ساتھ ہینی بال اس ایجنٹ میں کشش محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نامعلوم قاتل کی تلاش کے لیے مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرلیتا ہے، ، مگر اس کے عوض موجودہ جیل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کی شرط عائد کرتا ہے، حکام کو قبول نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ایک اور مقتول خاتون کو دریافت کیا جاتا ہے جس کے قتل کے لیے پروانے کی مدد لی گئی تھی، جبکہ قاتل ایک اور لڑکی کو اغوا کرلیتا ہے، جس کے بعد کلریس کو لیکٹر سے جعلی معاہدہ کرنے کا اختیار مل جاتا ہے، جس کے تحت بفالو کو پکڑنے میں مدد دینے پر اسے کسی اور جیل منتقل کیے جانے کا وعدہ کیا جانا تھا۔

مگر لیکٹر کی جانب سے جیل کی بجائے بفالو بل کے سراغ فراہم کے عوض کلریس کی ذاتی تفصیلات کے تبادلے کا کہا جاتا ہے، جس پر وہ بتاتی ہے کہ اس کے والد کا قتل اس وقت ہوا جب وہ 10 سال کی تھی۔

مگر ایک اعلیٰ عہدیدار لیکٹر سے چپکے سے ایک اور معاہدہ کرکے اسے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے، جہاں وہ بفالو بل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرتا ہے۔

اس کے بعد فلم کی کہانی میں زیادہ دلچسپ پیچ و خم آتے ہیں اور جن کو یہاں درج کرنے سے اسے دیکھنے کا سارا لطف ختم ہوجائے گا۔

اگر آپ سسپنس اور ہارر فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس فلم کو نہیں دیکھا تو ضرور دیکھ لیں، یہ مایوس نہیں کرے گی۔

اس کے مجموعی طور پر 3 حصے ہیں مگر بہترین یہی حصہ ہے۔

دلچسپ حقائق

اس فلم کے کچھ دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں :

یقین کرنا مشکل ہوگا مگر اس سائیکولوجیکل ہارر فلم کو ویلنٹائن ڈے کو ریلیز کیا گیا تھا، کیونکہ اس کے ڈسٹری بیوٹر اورین پکچرز کی خواہش تھی کہ اس کی ایک اور فلم ڈانسز ود وولفز کو 1991 کے ایوارڈز سیزن میں مساقت کا سامنا نہ ہو اور وہ 7 آسکر جینے مین کامیاب بھی ہوئی۔

یہ اس دور میں تیسری فلم تھی جس نے آسکر کے 5 بڑے ایوارڈز اپنے نام کیے، اس سے پہلے 1935 میں اٹ ہیپنڈ ون نائٹ اور 1976 میں ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔

تھامس ہیرس کے 1981 کے ناول ریڈ ڈراگون کو 1986 میں ایک فلم مین ہنٹر کی شکل میں فلمایا گیا تھا جو کچھ زیادہ متاثر نہیں کرسکی۔

یہی وجہ ہے کہ پروڈیوسر ڈینو ڈی لورینٹس نے ہینی بال لیکٹر کے حقوق مفت دی سائلنس آف لیمبز کے پروڈیوسرز کو دے دیئے تھے، جو 27 کروڑ ڈالرز سے زیادہ کمانے میں کامیاب رہی۔

اس فلم کے لیے انتھونی ہوپکنز اولین انتخاب نہیں تھے بلکہ سین کونری کو اس کی پیشکش کی گئی تھی جو انہیں نفرت انگیز لگا، بعد ازاں ڈینیئل ڈے لیوئس اور ڈیرک جیکوبی کے ناموں پر بھی غور کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم پر انتھونی کوئین کو بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ ملا تھا مگر لگ بھگ 2 گھنٹے کی اس فلم میں ان کا کردار صرف 24 منٹ اور 52 سیکنڈ تک ہی اسکرین پر نظر آیا جو اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والا دوسرا سب سے کم اسکرین ٹائم والا کردار بھی ہے۔

انتھونی ہوپکنز نے لوگوں میں ڈاکٹروں اور ڈینٹسٹ کے حوالے سے موجود خوف کو استعمال کرکے ناظرین میں دہشت کی لہر دوڑائی، اس مقصد کے لیے سفید لباس استعمال کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹروں کے سفید لباس سے لوگ خوف محسوس کرتے ہیں۔

فلم کے لیے انتھونی ہوپکنز نے اپنے کردار کے لیے متعدد سیریل کلرز پر تحقیق کی، جیلوں میں گئے اور قاتلوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ ان کی نفسیات کو سمجھ سکیں۔

فلم میں سیریل کلر بفالو بل کا کردار 3 حقیقی سیریل کلرز کا امتزاج تھا، یہاں تک کہ تھامس ہیرس نے ایک سیریل کلر کے ٹرائل میں شرکت کرکے اسے اپنے ایک ناول کی کاپی بھی دی۔

فلم کے پوسٹر میں پروانے کی کھوپڑی کو ایک تصویر سے لیا گیا۔

دھڑکنوں کو تیز کردینے والی یہ تھرلر فلم اب تک لوگ بھول نہیں پائے

وہ فلم جو 10 سال بعد بھی دیکھنے والوں کے لیے الجھن کا باعث بنی ہوئی ہے

وہ فلم جس کا جادو 26 سال بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے