نقطہ نظر

ہمیں باخبر رکھنے والوں کی خبر گیری کون کرے گا؟

لاک ڈاؤن کے سبب دنیا بھر میں اخبارات کی صنعت کو سرکولیشن برقرار رکھنے میں مشکل پیش آئی اور اعجاز جیسے ہاکر اس سے شدید متاثر ہوئے۔

اعجاز علی کا دن اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب پرندے بھی بیدار نہیں ہوتے۔ صبح اٹھنے کے بعد اس کے پاس صرف اپنی سائیکل صاف کرنے کا ہی وقت ہوتا ہے اور پھر وہ پشاور کے یادگار چوک پر واقع اسٹال سے اخبار لینے نکل جاتا ہے۔

صبح کی روشنی نمودار ہونے کے بعد وہ کینٹ کے علاقے میں گھروں میں اخبار ڈالنا شروع کرتا ہے۔ ایک گھڑی کی طرح وہ بھی ایک گھر سے دوسرے گھر اخبار ڈالتا جاتا ہے تاکہ یہ اخبار بروقت ناشتے کی میز کی زینت بن جائے۔

خبروں کی طرح اعجاز کا کام بھی کبھی نہیں رکتا۔ شاید کچھ عرصے پہلے تک اسے کبھی بھی رک کر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی، لیکن پھر کورونا آگیا اور جس طرح عمومی زندگی غیر یقینی کا شکار ہوئی اسی طرح اعجاز کا کام بھی غیر یقینی کا شکار ہوگیا۔

اعجاز علی کا کہنا تھا کہ ’اس وبا کے دوران میں اپنی زندگی کے مشکل ترین دنوں سے دوچار رہا۔ لاک ڈاؤن کے دوران جب سب لوگ گھروں میں محصور تھے، میں تب بھی صبح سویرے فجر کی اذان سے پہلے اٹھ جاتا تھا اور کام شروع کردیتا تھا۔ لیکن وبا کے خوف سے اخبار کے ساتھ لوگوں کا رویہ بالکل تبدیل ہوگیا تھا۔ انہیں خوف تھا کہ وہ اخبار سے بھی اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں‘۔ یہ خوف بالکل بے بنیاد تھا کیونکہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا کہ اخبارات کو چھونے سے یہ وائرس لگ سکتا ہے۔

اب کورونا کی دوسری لہر کے آنے سے یہ خوف ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ جس طرح کورونا کی پچھلی لہر کے دوران اعجاز کو کام پر نکلنے سے پہلے ماسک لگانا پڑتا تھا اور اپنے ہاتھ صاف کرکے دستانے پہننے پڑتے تھے اسی طرح اب دوبارہ اخبار کے اسٹال پر جانے سے پہلے وہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرتا ہے۔

’میں دیکھ رہا تھا کہ اخباروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور لوگ اخبار ڈالنے سے منع کرتے جارہے ہیں‘۔ خریداروں کی کم ہوتی ہوئی تعداد نے اعجاز کو مایوس کردیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کے لیے لوگوں نے مطبوعہ ذرائع کی جگہ آن لائن ذرائع کا استعمال شروع کردیا کیونکہ وہ محفوظ اور تیز سمجھے جاتے ہیں۔

اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشانی کا شکار اعجاز اخباروں کا چھوٹا سا گٹھا لیے صبح سویرے اپنی سائیکل پر نکل پڑتا تھا۔ چونکہ لاک ڈاؤن کے دوران اس کے پاس اخبارات کم ہوتے تھے اس وجہ سے وہ جلدی گھر لوٹ آتا تھا۔ پشاور جیسے شہر میں عموماً مضافاتی علاقوں سے لوگ نوکریوں کے لیے یا پھر تعلیم یا کاروبار کی غرض سے آتے ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ دفاتر اور کاروبار کے بند ہوجانے سے بھی اخبار کی فروخت میں کمی ہوئی جس سے ہاکروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں اخبارات کی صنعت کو اپنی سرکولیشن برقرار رکھنے میں مشکل پیش آئی اور پشاور شہر میں اعجاز جیسے ہاکر اس سے شدید متاثر ہوئے۔

اعجاز کا کہنا تھا کہ ’لاک ڈاؤن سے پہلے میں 2 انگریزی اخباروں کی 8، 8 کاپیاں، ایک اردو اخبار کی 10 کاپیاں اور پشاور میں مقبول ایک اور اردو اخبار کی 35 کاپیاں فروخت کرتا تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران دونوں انگریزی اخباروں کی ایک، ایک کاپی، اردو اخبار کی 6 کاپیاں اور پشاور میں مشہور اردو اخبار کی 20 کاپیاں ہی فروخت ہونے لگیں‘۔

اعجاز عام طور پر روزانہ 700 سے 800 روپے کمایا کرتا تھا جس سے اس کا گزر بسر ہوجاتا تھا۔ تاہم لاک ڈاؤن کے دنوں میں اس کی روزانہ کی آمدن کم ہوکر 200 روپے رہ گئی تھی۔ اعجاز نے بتایا کہ ’مہنگائی کی وجہ سے اس رقم میں گھر والوں کی غذا کا بندوبست تک نہیں ہوسکتا تھا‘۔

لاک ڈاؤن کے دوران گھر چلانا مشکل ہوا تو اعجاز نے ایک اور ذریعہ آمدن تلاش کیا۔ اس نے اپنے محلے میں آلو کے چپس بیچنا شروع کیے۔ وہ یہ کام چھپ کر کرتا تھا تاکہ پولیس اسے حکومتی احکامات نظر انداز کرنے کی وجہ سے جیل میں نہ ڈال دے۔

لیکن کچھ ہی دنوں میں اسے یہ کام بند کرنا پڑا کیونکہ آلو اور تیل کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ منافع نہیں ہورہا تھا۔ اس کے پاس اپنی محدود آمدنی میں گزارا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بجلی کے بل اور گھر کا کرایہ اس کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے تھے۔

اعجاز نے افسردگی سے کہا کہ ’حکومت نے لاک ڈاؤن لگانے سے قبل ہم جیسوں کا بالکل نہیں سوچا، لاک ڈاؤن کے دن ہمارے لیے کسی المیے سے کم نہیں تھے۔ خریدار اکثر ہمیں مہینے کے آخر میں اخبارات کی رقم ادا کرتے ہیں۔ جب لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو ہماری رقم پھنس گئی، خریدار جلد بازی میں واپس اپنے آبائی علاقوں کو چلے گئے تھے اور جو یہیں رہے وہ ہم سے مل نہیں رہے تھے۔ انہیں لگتا تھا انہیں ہم سے وائرس لگ سکتا ہے‘۔

پشاور میں کورونا وائرس کی وجہ سے اخبارات کی سرکولیشن کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر اعجاز جس مقبول اردو اخبار کو فروخت کرتا ہے اس کی سرکولیشن 24 ہزار سے کم ہوکر 12 ہزار رہ گئی ہے۔

پشاور ہاکرز ایسوسی ایشن کے صدر رضا خان نے حکومت اور اخباری تنظیموں کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہاکروں پر کوئی توجہ نہیں دی جبکہ وہ بھوک سے مرنے کے قریب تھے۔ رضا خان نے مزید بتایا کہ اس مسئلے کو پاکستان ہاکرز ایسوسی ایشن کے سامنے بھی اٹھایا گیا اور حکومت کو مالی امداد کے لیے ایک فہرست بھی دی گئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

رضا خان نے بتایا کہ آل پاکستان نیوزپیرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کی ہدایت پر تمام ہاکروں نے ایس او پیز پر عمل کیا۔ ’ہاکروں نے اخبارات کی محفوظ طریقے سے ترسیل یقینی بنائی۔ اگرچہ ہاکروں کے ساتھ خریداروں کا رویہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے ایس او پی پر عمل کرتے ہوئے اخبارات کی تقسیم جاری رکھی اور کوئی بھی ہاکر کورونا کا شکار نہیں ہوا'۔

رضا خان کا کہنا تھا کہ وائرس کے خوف سے خریداروں نے ہاکروں کو اچھوت سمجھ لیا تھا۔ ’یا تو انہوں نے بل ادا کرنے سے ہی انکار کردیا تھا یا اگر کوئی بل ادا کرتا بھی تھا تو پیسے ہاکر کے ہاتھ میں دینے کے بجائے زمین پر رکھ دیتا تھا‘۔

سرکاری محکموں سے اخبارات کی درست سرکولیشن معلوم کرنا تو بہت مشکل کام ہے لیکن آزاد ذرائع بتاتے ہیں کہ اس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ اس کمی کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ قارئین کا سوشل میڈیا اور ٹی وی یا انٹرنیٹ کی طرف راغب ہونا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ اس وبا کے دوران اور اس سے پہلے ہونے والی مہنگائی بھی ہے۔

ایک اخبار کے شعبہ سرکولیشن میں موجود ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’جب انٹرنیٹ پر تازہ ترین خبریں مفت میں موجود ہوتی ہیں تو پھر اخبار کون خریدے گا‘۔

اعجاز کی طرح ملک بھر کے دیہاڑی دار طبقے کو کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ مزدوروں سے متعلق صوبائی قوانین ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتے ہیں لیکن اس وبا نے مزدوروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں وہ ان قوانین کے موثر ہونے کی نفی کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے پارلیمانی سیکرٹری شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ہاکرز لیبر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ’ان کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے جس کے سبب انہیں حکومتی امداد حاصل نہیں ہوئی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ رجسٹریشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد انہیں ان کا حق مل جائے گا۔

اعجاز کی طرح مطبوعہ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد نے ایک مشکل سال دیکھا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے انہیں اپنی بقا کا چیلنج درپیش تھا۔

رضا خان نے ہمیں بتایا کہ 'صورتحال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے اور وائرس کے پھیلنے کے بعد سے اخبارات کے تقریباً 25 اسٹال بند ہوچکے ہیں‘۔ پشاور میں تقریباً 450 رجسٹرڈ ہاکر تھے جن میں سے 40 ہاکروں نے کورونا کے دوران کام چھوڑ دیا تھا اور وہ اب تک کام پر واپس بھی نہیں آئے ہیں۔


یہ مضمون 15 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

وسیم سجاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔