نقطہ نظر

گلگت بلتستان میں انتخابی دن کیا کچھ ہوا؟

شہری اپنے معذوروں اور بزرگوں کو کاندھوں پر اٹھائے پولنگ اسٹیشن لے کر آتے اور انہیں حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کرنے دیتے۔

15 نومبر کو گلگت بلتستان کی تاریخ کے 12ویں انتخابات منعقد ہوئے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی نظام کا آغاز 1970ء سے ہوا جہاں شمالی علاقہ جات مشاورتی کونسل کا قیام عمل میں لاکر وفاق کی جانب سے نمائندوں کا تقرر کیا گیا۔

1975ء میں یہ مشاورتی کونسل تبدیل ہوکر ناردرن ایریاز کونسل بن گئی اور پھر انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1994ء میں اس میں مزید اصلاحات نافذ کرکے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے اور کونسل کو قانون ساز کونسل بنادیا گیا۔ مذکورہ حلقہ بندیاں اب بھی اسی طرح قائم ہیں۔

2009ء میں پہلی مرتبہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے گلگت بلتستان کے نظام کو مزید بہتر کرتے ہوئے صوبائی حیثیت دے دی گئی جس کے نتیجے میں مقامی اسمبلی مزید بااختیار ہوگئی اور قائدِ ایوان وزیرِ اعلیٰ بن گیا۔ گورنر اور گلگت بلتستان کونسل سمیت دیگر اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس صدارتی حکم نامے کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے 10 دسمبر 2014ء کو اپنی مدت مکمل کی۔ دوسری مرتبہ انتخابات 8 جون 2015ء کو منعقد ہوئے اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے 24 جون 2020ء کو اپنا 5 سالہ دور مکمل کرلیا۔

15 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں پہلی مرتبہ پاک فوج کی مدد نہیں لی گئی بلکہ مقامی پولیس کو سیکیورٹی کے انتظامات سونپ دیے گئے۔ گلگت بلتستان پولیس کی نفری کم پڑنے کی وجہ سے ملک کے دیگر صوبوں سے 5 ہزار 700 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے جو انتخابی روز پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر چوکس نظر آئے۔

مزید پڑھیے: گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟

صبح 8 بجے ہی عوام اپنے حق رائے دہی کے لیے گھروں سے نکل آئے اور پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر کچھ ہی دیر میں طویل قطاریں بن گئیں اور نوجوانوں نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس بات پر اتفاق کرلیا کہ بزرگ شہری جو کسی بھی جماعت یا امیدوار کا ووٹر ہو، اسے قطار میں سب سے آگے رکھا جائے گا۔

صبح 9 بجے کے قریب ہی قطاروں سے صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ ووٹنگ کا مرحلہ انتہائی سست ہے۔ ایک گھنٹے میں بمشکل سے 5 ووٹ کاسٹ کروائے گئے ہیں۔ اس دوران سست روی کا شکار پولنگ کا عمل سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بن گیا۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے 24 میں سے 23 حلقوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ شہری اپنے معذوروں اور بزرگوں کو کاندھوں پر اٹھائے پولنگ اسٹیشن لے کر آتے اور انہیں حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کرنے دیتے۔ ایسے افراد کو بھی پولنگ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا جو جسمانی طور پر کسی معذوری کا شکار تھے اور انہیں گھر کا کوئی دوسرا جوان سہارا دے کر لا رہا تھا۔

گلگت بلتستان میں نومبر کا مہینہ مشکل مہینوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ پیداوار اور طلب میں نمایاں فرق کی وجہ سے کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ جھیلنا پڑتی ہے اور انتخابات کے روز بھی یہی سب دیکھنے کو ملا۔ بجلی کی مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے شہری اندھیرے میں یا پھر موبائل ٹارچ کی روشنی میں اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے تھے۔

انتخابات کے روز موسم نے بھی اپنے تیور دکھائے ہوئے تھے۔ دن بھر دھوپ دیکھنے کو نہیں ملی اور آسمان پر بادل گھرے رہے۔ شہری علاقوں میں درجہ حرارت 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا تھا جبکہ بالائی علاقوں میں یہ مزید کم تھا۔ لیکن ان تمام تر مسائل کے باوجود سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور امیدواروں کے حامیوں کے جوش و جذبے میں کسی قسم کی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔

پولنگ اسٹیشنوں کے باہر سیاسی جماعتوں نے اپنے پنڈال نما اسٹال لگائے ہوئے تھے جہاں ووٹروں کی آسانی کے لیے ان کے پولنگ اسٹیشن اور سیریل نمبر کی تفصیلات بتائی جارہی تھیں۔

میں بوائز ہائی اسکول کشروٹ گلگت میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پہنچا اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کے مرحلے سے گزر رہا تھا تو شفقت بھری تھپکی محسوس ہوئی، مڑکر دیکھا تو گلگت کے معروف عالم دین اور خطیب مولانا خلیل احمد قاسمی تھے، شفقت کے بدلے ان کو خود سے آگے کیا اور خود ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا تاہم 2 بوتھ موجود ہونے کی وجہ سے ووٹ ایک ساتھ ہی کاسٹ ہوا۔

صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے اور بروقت مستند معلومات پہنچانے کی دوڑ میں متعدد پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کرنا پڑا۔ سول ڈسپنسری کشروٹ میں سابق وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ میر افضل نے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن جوٹیال میں ووٹ کاسٹ کیا۔

نگران وزیرِ اعلیٰ میر افضل ایک قطار میں کھڑے ہوگئے، ضعیف العمری اور شہریوں کی جانب سے تعظیماً جگہ دینے کے باوجود نگراں وزیرِ اعلیٰ قطار سے نہیں ہٹے اور اپنی باری پر ہی ووٹ کاسٹ کرکے یہ مثال قائم کردی کہ امورِ سرکار میں شہری برابر ہوتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعلیٰ نے کچھ امور پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان بھی پولنگ اسٹیشنوں کا جائزہ لیتے رہے۔ شہباز صاحب کی تمنا رہی کہ سب اچھا ہی لکھا جائے۔

پولنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے سے کچھ وقت پہلے خومریر کوٹ میں خواتین کے پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا۔ وہاں تمام امیدواروں نے ہی اپنی پولنگ ایجنٹس اندر بٹھائی ہوئی تھیں اور وہ انتہائی خوشگوار ماحول میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف تھیں۔

اسلامی تحریک پاکستان کے امیدوار فقیر شاہ کی پولنگ ایجنٹ ایک کالج کی طالبہ تھی۔ وہ شہریوں اور ووٹروں کے رویے سے نالاں تھی کہ لوگ سوشل میڈیا کی مقبولیت دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ علاقے کی بہتری کے لیے کون سا امیدوار موزوں ہوسکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حافظ حفیظ الرحمٰن کے کیمپ میں میٹرک کی ایک طالبہ کو بھی بٹھایا گیا تھا جس نے مسلم لیگ (ن) کے منشور کے طور پر حفیظ الرحمٰن کی تقریر مکمل یاد کی ہوئی تھی۔ خومریر کوٹ میں مسلم لیگی نمائندوں نے بھی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا۔

پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد کی طرف سے بھی خواتین پولنگ ایجنٹ اسٹیشن میں موجود تھیں جو حد درجہ مطمئن تھیں اور اس اسٹیشن سے جمیل احمد کو زیادہ ووٹ بھی حاصل ہوئے۔ یہاں پر جماعت پنجم کا ایک طالب علم بھی پیپلزپارٹی کے کیمپ میں موجود تھا، جس نے اپنا مستقبل کا خواب سیاستدان بننا بتایا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ممبر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی محمد موسیٰ کے نواسے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فتح اللہ خان کی طرف سے اس اسٹیشن میں یونیورسٹی کی طالبات کو بٹھایا گیا تھا جو مجموعی صورتحال پر مطمئن تھیں تاہم انہوں نے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے گریز کیا۔

جوٹیال کالج آف ایجوکیشن کے پولنگ اسٹیشن میں تحریک انصاف کے کیمپ میں 3 افراد انتہائی متحرک تھے، جہاں کہیں بھی کیمرہ نظر آتا یا پارٹی پرچم نظر آتا وہ دوڑ کر وہاں پہنچتے اور اپنی پارٹی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے کارکنوں کی ہمت بڑھاتے۔ تینوں افراد الیکشن کے لیے خصوصی طور پر کوئٹہ سے آئے ہوئے تھے۔

ایک موقع پر وی آئی پی گاڑی ان تینوں کے پاس آکر کچھ دیر کو رک گئی اور ان سے بات چیت کی۔ معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ وفاقی وزیر تھیں جو قریبی پولنگ اسٹیشن کا پتہ پوچھ رہی تھی۔ تاہم ان کے دورے کا مقصد معلوم نہیں ہوسکا۔

شام 5 بجے سے ہی مختلف اسٹیشنوں اور حلقوں سے نتائج موصول ہونا شروع ہوگئے لیکن تادمِ تحریر حلقہ 2 گلگت کا سرکاری نتیجہ موصول نہیں ہوسکا ہے اور تمام امیدواروں کے نمائندے ڈپٹی کمشنر آفس میں 3 روز سے گنتی میں مصروف ہیں۔

فہیم اختر

فہیم اختر کا تعلق گلگت سے ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔