Parenting

کورونا کے شکار بچوں میں بخار، قے اور متلی سب عام علامات ہیں، تحقیق

تحقیق میں 714 بچوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی اور 36 فیصد میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آئیں۔

نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 میں مبتلا بچوں میں سب سے عام علامات میں سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی، بخار، سردرد، قے اور متلی ہیں، تاہم ایک تہائی میں کسی قسم کی نشانیاں ظاہر نہیں ہوتیں۔

یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

البرٹا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ انفلوائنزا جیسی علامات جیسے کھانسی، ناک بہنا اور گلے کی سوجن بھی ان بچوں میں عام علامات تھیں، جن میں وائرس کا ٹیسٹ نیگیٹو رہا۔

تحقیق کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ انفلوائنزا جیسی علامات بچوں میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان کم کرتی ہیں۔

تحقیق میں اسکولوں اور والدین کو مشورہ دیا گیا کہ بخار، سردرد، قے، متلی اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کی علامات کو اسکریننگ کے عمل کا حصہ بنائیں۔

تحقیق کے نتائج طبی جریدے کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل میں شائع ہوئے۔

اس تحقیق کے دوران یہ سمجھنے کے لیے بچوں میں کورونا کی علامات کیا ہوتی ہیں، اس مقصد کے لیے 13 اپریل اور 30 ستمبر کے دوران البرٹا پبلک ہیلتھ میں آنے والے بچوں کی علامات کو دیکھا گیا، جن کے کووڈ ٹیسٹ ہوئے۔

محققین نے اس کے بعد کووڈ 19 کے شکار ہونے والے بچوں کی علامات کا موازنہ ان افراد سے کیا جن میں ٹیسٹ نیگیٹو رہا تھا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ جن بچوں میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، ان میں سے 25.5 فیصد کو بخار یا ٹھنڈ لگنے، 24.5 فیصد کو کھانسی اور 19 فیصد کو ناک بہنے کی شکایت تھی۔

تحقیق میں 714 بچوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی اور 36 فیصد میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آئیں۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ چونکہ ایک تہائی سے زائد بچوں میں کسی قسم کی علامات نہیں تھیں، تو اس وبائی بیماری کے شکار بچوں کی شناخت کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

تحقیق کے مطابق درحقیقت بغیر علامات والے کووڈ کے شکار بچوں کی تعداد نتائج میں رپورٹ کردہ تعداد سے زیادہ ہوگی، کیونکہ وہ ٹیسٹنگ کے لیے آئے ہی نہیں ہوں گے۔

تحقیق کے مطابق جن بچوں میں کووڈ ٹیسٹ نیگیٹو رہا، ان میں سب سے عام علامات میں کھانسی 25 فیصد، ناک بہنا 22 فیصد اور بخار یا ٹھنڈ لگنا 15 فیصد تھی۔

محققین نے دریافت کیا کہ 4 سال یا اس سے کم عمر بچوں میں ٹیسٹ نیگیٹو رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ 13 سے 17 سال کے نوجوانوں میں ٹیسٹ مثثبت آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے قبل ستمبر میں آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر بچوں میں بدہضمی کووڈ 19 کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔

کوئنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نظام ہاضمہ کے مسائل ممکنہ طور پر بچوں میں کووڈ 19 کی اہم ترین علامت ہوتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ کھانسی یا سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلیوں سے زیادہ ہیضہ اور الٹیاں کووڈ 19 کی پیشگوئی میں زیادہ اہمیت رکھنے والی علامات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی بچوں میں کووڈ 19 کی تشخیص چاہتے ہیں تو آپ کو ہیضے اور الٹیوں کو دیکھنا چاہیے، صرف نظام تنفس کی علامات تک محدود رہنا ٹھیک نہیں۔

محققین کے مطابق اس وقت علامات کی آفیشل فہرست سے صرف 76 فیصد کیسز کی شناخت ہوپاتی ہے، مگر معدے کے مسائل کو فہرست کا حصہ بنانے سے یہ شرح 97 فیصد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق کے دوران برطانیہ بھر میں طبی عملے کے 990 سے زائد بچوں کے ٹیسٹ کیے گئے جن کی عمریں 2 سے 15 سال کے درمیان تھی۔

نتائج میں 68 بچوں میں اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا اور ممکنہ طور پر وہ پہلے ہی کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے۔

50 فیصد بچوں نے علامات کو رپورٹ کیا تھا جن میں سے 19 فیصد ہیضے، الٹیوں اور پیٹ درد سے متاثر ہوئے تھے۔

بچوں میں کووڈ 19 سے شدید بیماری اور موت کا خطرہ کم ہونے کی تصدیق

ماں کے دودھ سے بچے میں کورونا وائرس منتقل ہوسکتا ہے؟

کورونا وائرس کی وبا و لاک ڈاؤن سے لاکھوں بچوں کی صحت داؤ پر لگ گئی