عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے جمعے کو پریس بریفننگ کے دوران کہا 'ہم نے ایسے ڈیٹا کو دیکھا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری کے خلاف تحفظ زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ بیماری کے کیسز کو دیکھا'۔
انہوں نے کہا 'تو سوال یہ ہے کہ معاشرے کو ملنے والے تحفظ کی سطح کیا ہے؟'
پاکستان میں بھی نومبر میں ایسا پہلا کیس سامنے آیا تھا جب مردان سے تعلق رکھنے والے شہری میں پہلی بیماری کے 4 ماہ بعد دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تاہم ابھی تک دنیا بھر کے محققین یہ تعین کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کس طرح اور کب کوئی فرد دوبارہ کووڈ 19 کا شکار ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنگ ڈیزیز و زونیسز کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے اس حوالے سے بتایا کہ محققین کی جانب سے تاحال تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اینٹی باڈی تحفظ پہلی بیماری کے بعد کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا 'ہم اب تک جو سمجھ سکے ہیں کورونا وائرس سے متاثر 90 سے سو فیصد افراد میں اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہو، علامات نمودار نہ ہو یا اس کی شدت سنگین ہو'۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی ردعمل 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
حال ہی میں ایک برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں کم از کم 6 ماہ تک دوبارہ اس بیماری میں مبتلا ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
اس تحقیق کو اپریل سے نومبر تک جاری رکھا گیا تھا جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسپٹلز کے 12 ہزار سے زیادہ ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔