نقطہ نظر

پاکستانی ٹیم کے لیے دورہ نیوزی لینڈ اہم کیوں ہے؟

پاکستان کے لیے اظہر کا کپتان نہ ہونا ایک طرح سے فائدہ مند ہی ثابت ہوگا کیونکہ صحیح بات یہی ہے کہ وہ کپتانی کے اہل نہیں ہیں۔

دورے نیوزی لینڈ پر جانے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے 54 رکنی اسکواڈ کے پاکستان میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ اس وقت تنازع کا سبب بن گئے ہیں جب نیوزی لینڈ میں 10 کھلاڑیوں کے ٹیسٹ مثبت آگئے۔ نیوزی لینڈ کے محکمہ صحت کی جانب سے اٹھائے گئے سخت اقدمات کو دیکھتے ہوئے تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں یہ دورہ شروع ہونے سے پہلی ہی ختم نہ ہوجائے۔

نیوزی لینڈ کے قوانین کے مطابق بیرونِ ملک سے آنے والے ہر شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ 2 ہفتے آئسولیشن میں گزارے۔ پھر جو ٹیمیں اپنی آمد کے 3 دن بعد کورونا ٹیسٹ کروالیں اور ان کے نتیجے منفی آجائیں تو انہیں آئسولیشن میں پریکٹس کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

لیکن ایک 4 اسٹار ہوٹل میں بایو سیف ماحول میں اپنے قیام کے دوران کچھ پاکستانی کھلاڑی آئسولیشن کے قوانین کو توڑتے ہوئے آپس میں ملتے جلتے نظر آئے۔ یہی غلطی ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے بھی کی تھی اور انہیں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی طرح پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

خیر معاملات اس وقت معمول پر آئے جب 7 دسمبر کو پاکستانی کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ منفی آنے پر انہیں آئسولیشن ختم کرنے اور پریکٹس کی اجازت مل گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ کھلاڑی اب نیوزی لینڈ کے ساتھ 3 ٹی20 میچوں کی سیریز کے لیے تیاریاں کرسکتے ہیں۔ اس سیریز کے بعد پاکستانی شاہین بابر اعظم کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے ساتھ 2 ٹیسٹ میچ بھی کھیلیں گے۔ اس سیریز میں نیوزی لینڈ کی کپتانی کین ولیمسن کریں گے۔

ہیڈ کوچ مصباح الحق دورے کے شروع میں آنے والی مشکلات سے پریشان تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی 34 کھلاڑیوں اور 20 بیک روم اسٹاف کو کرائسٹ چرچ میں آئسولیشن کا سامنا تھا اور انہیں چھوٹے گروپوں میں بھی اس وقت تک پریکٹس کی اجازت نہیں تھی جب تک مقامی حکام کی جانب سے اس بات کی اجازت نہ مل جائے۔

ہیڈ کوچ مصباح الحق سال 2017ء میں پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ 2019ء میں انہوں نے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کا منصب حاصل کیا۔ حال ہی میں انہوں نے چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے دورہ نیوزی لینڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر متوقع واقعات کی وجہ سے کھلاڑی ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ قوانین کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی متاثر ہوئے ہیں۔ انہیں بہتر پرفارم کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوتا ہے اور تیاری کا ایک خاص ماحول درکار ہوتا ہے، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام باتوں کو بھول کر دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے ساتھ میچ کے چیلنج پر توجہ مرکوز رکھیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نیوزی لینڈ میں کھیلوں کی بہترین سہولیات موجود ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے کھلاڑی ملنے والے ہر موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں‘۔

موجودہ اسکواڈ اور اکتوبر / نومبر میں راولپنڈی میں زمبابوے کو وائٹ واش کرنے والے اسکواڈ میں صرف سرفراز احمد اور بیٹنگ آل راؤنڈر حسین طلعت کی عدم موجودگی کا فرق ہے۔ فخر زمان کو بھی روانگی کے روز بخار کے سبب آکلیڈ جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس وقت فخر زمان قائدِاعظم ٹرافی کھیلنے میں مصروف ہیں۔

خوش قسمتی سے ان رکاوٹوں کے باوجود بھی ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستان کی تیاریوں پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ سابق کپتان اظہر علی، اوپنر شان مسعود اور عابد علی، فواد عالم، حارث سہیل اور امام الحق جیسے کھلاڑی نیوزی لینڈ اے ٹیم کے خلاف میچ سے یقیناً فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ کھلاڑی اس ٹیم کا حصہ ہیں جو کوئینز ٹاون میں ہونے والے نیوزی لینڈ اے ٹیم کے ساتھ فرسٹ کلاس میچ کھیلے گی۔

اسی طرح محمد عباس، یاسر شاہ اور نوجوان نسیم شاہ جیسے باؤلر بھی ورلڈ ٹیسٹ چمپیئن شپ گیمز میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے 2 ٹیسٹ میچوں سے پہلے اپنی فارم حاصل کرلیں گے۔ پہلا ٹیسٹ میچ ماؤنٹ مونگانوئی کے بے اوول میں 26 سے 30 دسمبر تک کھیلا جائے گا، جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ کرائسٹ چرچ کے ہیگلے اوول میں 3 سے 7 جنوری تک منعقد ہوگا۔

نیوزی لینڈ ورلڈ ٹیسٹ چمپیئن شپ ٹیبل پر آسٹریلیا، بھارت اور برطانیہ کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ نیوزی لینڈ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کپتان کین ولیمسن کی 251 رنز کی کیریئر بیسٹ اننگز کی مدد سے چوتھے ہی دن ایک اننگ سے کامیابی حاصل کرلی۔ اگر دوسرے ٹیسٹ میں وہ یہی کارکردگی دہرا دے تو وہ برطانیہ سے آگے نکل سکتی ہے۔

دوسری جانب پوانٹس ٹیبل پر پاکستان کی پوزیشن 5ویں ہے۔ اگر نیوزی لینڈ ویسٹ انڈیز سے دوسرا میچ بھی جیت گیا تو پاکستان کے مقابلے میں نیوزی لینڈ کے 100 پوائنٹس زیادہ ہوجائیں گے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی کپتان بابر اعظم کے لیے یقینی طور پر صورتحال مشکل ہوگی۔ یاد رہے کہ اظہر علی سے کپتانی کی ذمہ داریاں لے کر بابر اعظم کو کپتان بنایا گیا ہے، اور بطور کپتان یہ ان کی پہلی ٹیسٹ سیریز ہے۔ اگر 2016ء میں ہونے والے پاکستان کے دورہ نیوزی لینڈ کو یاد کریں تو مصباح الحق کی زیرِ قیادت کھیلنے والی قومی ٹیم کو میزبان نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 0-2 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پھر نیوزی لینڈ نے متحدہ عرب امارات میں 2018ء میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں بھی اسی کارکردگی کو برقرار رکھا اور یہ سیریز 1-2 سے جیت لی۔ پاکستان کے خلاف گھر سے باہر یہ نیوزی لینڈ کی دوسری فتح تھی، جو 39 سال بعد نصیب ہوئی تھی۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین 58 ٹیسٹ میچ کھیلے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 25 میچ پاکستان اور 12 میچ نیوزی لینڈ نے جیتے ہیں۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ سیریز کی آخری فتح 10 سال پہلے حاصل کی تھی۔ یہ مصباح کے کیرئیر کا آغاز تھا اور سلمان بٹ کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی بات نئی نئی تھی۔

گزشتہ ایک دہائی میں نیوزی لینڈ ہوم گراؤنڈ پر ایک اچھی ٹیم بن چکی ہے۔ فاسٹ باؤلر ٹرینٹ بولٹ، ٹم ساؤتھی اور نیل ویگنر پر مشتمل گروپ کو اگر گرین ٹاپ وکٹ مل جائے تو وہ مخالف ٹیموں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا خوب ہنر جانتے ہیں۔ آنے والی ٹیسٹ سیریز بھی بلے بازوں کے لیے مشکل ثابت ہوگی۔ اس موقع پر انہیں پُرعزم رہنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کے لیے اظہر کا کپتان نہ ہونا ایک طرح سے فائدہ مند ہی ثابت ہوگا کیونکہ صحیح بات یہی ہے کہ وہ کپتانی کے اہل نہیں ہیں۔ اپنی مختصر کپتانی کے دوران وہ مختلف خیالات میں مگن نظر آئے اور میدان میں بھی کوئی خاص کارکردگی نہی دکھا سکے۔

بابر کی کپتانی کے بارے میں ابھی سے کوئی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔ لیکن ہاں، یہ بات درست ہے کہ کرکٹ بورڈ نے ٹیم کے ایک بہترین بلے باز کو یہ ذمہ داری دے کر اک بہت بڑا رسک لیا ہے۔ خوش قسمتی سے بورڈ کا آفیشل بیانیہ یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر تمام سطحوں پر دباؤ برداشت کرسکتے ہیں۔

محدود اوور کے کھیل میں بابر اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے زمبابوے کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کے فائنل میں کیا۔ اس میچ میں پاکستان کی یقینی فتح ٹائی میں بدل گئی اور سپر اوور میں مہمان ٹیم میچ جیت گئی۔ کپتان ہونے کی وجہ سے بابر کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ صرف ایک عام کھلاڑی نہیں ہیں اور اب ان پر کئی نظریں ہوں گی۔

مختلف حلقوں میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ بابر ٹیسٹ کے محاذ پر دباؤ میں آسکتے ہیں جس سے ان کی بیٹنگ متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان ٹاپ ٹیموں میں جگہ بنانے کے ایک ختم نہ ہونے والے راستے پر چل پڑے گا۔

سرفراز کی رخصتی نے پاکستان کی ٹی20 درجہ بندی کو بھی متاثر کیا ہے۔ سرفراز نے قومی ٹیم کو اس فارمیٹ میں پہلے نمبر پر پہنچا دیا تھا۔ آنے والے ٹی20 میچ آکلینڈ (18 دسمبر)، ہیملٹن (20 دسمبر) اور نیپیئر (22 دسمبر) میں کھیلے جائیں گے۔ یہ میچ ہی اس بات کے تعین کریں گے کہ اب جبکہ ٹی20 ورلڈ کپ میں 11 ماہ باقی ہیں تو پاکستانی ٹیم کی تیاری اس حوالے سے کیسی ہے۔

اگر بابر کو حوصلے کی ضرورت ہے تو انہیں اس کارکردگی کو دیکھنا ہوگا جس کی وجہ سے پاکستان نے آخری مرتبہ سرفراز کی قیادت میں نیوزی لینڈ کو نیوزی لینڈ میں 1-2 سے شکست دی تھی۔ پاکستان مجموعی طور پر ٹی20 کرکٹ میں نیوزی لینڈ سے 13 میچ جیت چکا ہے جبکہ نیوزی لینڈ 8 میچوں میں کامیاب رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ اعداد و شمار ٹیم کے لیے امید افزا ہوں گے۔


یہ مضمون 13 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خالد ایچ خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔