جرمنی میں برطانوی فرم، امریکی فوجی اڈا قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث تھا، ایران
ایران نے امریکا کے ہاتھوں عراق میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی ذمہ داری جرمنی میں ایک برطانوی سیکیورٹی فرم اور امریکی ایئربیس پر عائد کی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک نیوز کانفرنس میں تہران کے پراسیکیوٹر علی الکسیمہر نے بغیر ثبوت فراہم کیے دعویٰ کیا کہ لندن میں موجود سیکیورٹی سروس کی کمپنی 'جی 4 ایس' نے قاسم سلیمانی کے قتل میں کردار ادا کیا اور ان کے ہمراہ عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندیس اور متعدد دیگر شامل تھے۔
مزید پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک
عدلیہ کی سرکاری نیوز ویب سائٹ 'میزان' کے مطابق انہوں نے بغداد انٹرنیشنل ہوائی اڈے کے حوالے سے کہا کہ اس کمپنی کے ایجنٹوں نے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی جنگجوؤں کی معلومات دہشت گردوں کو ہوائی اڈے میں داخل ہوتے ہی حوالے کردی تھیں'۔
دوسری جانب برطانوی کمپنی نے تصدیق کی کہ یہ قتل کے وقت عراقی سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بطور آؤٹ سورس 'سیکیورٹی کی متعدد سروسز' کے انچارج تھے لیکن انہوں نے ایرانی پراسیکیوٹر کے الزامات کی تردید کی۔
جی 4 ایس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ 'الزامات محض بے بنیاد اور قیاس پر مبنی ہیں، جی 4 ایس یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ 3 جنوری 2020 کو قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی پر ہونے والے حملے میں کمپنی کا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں تھا'۔
تہران کے پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا کہ جرمنی میں امریکی ایئربیس نے 'حملے کے لیے ڈرون کی رہنمائی سے متعلق معلومات دیں اور ڈرونز کے طیاروں کا ڈیٹا امریکی افواج کے حوالے کردیا'۔
اس سے قبل ایرانی حکام نے کہا تھا کہ امریکا نے قاسم سلیمانی کے قتل میں جرمنی کے جنوب مغربی میں موجود رامسٹین ایئربیس کا استعمال کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران: جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کےدوران بھگدڑ، 56 افراد ہلاک
واضح رہے کہ یہ اڈا نیٹو الائیڈ ایئر کمانڈ کے علاوہ یورپ میں امریکی فضائیہ کے صدر دفاتر کے طور پر کام کرتا ہے اور وہ پچھلے کچھ عرصے سے مغربی ایشیا میں امریکی ڈرون آپریشنز کے کنٹرول سینٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔
تہران کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایران ان افراد کا تعاقب جاری رکھے گا جنہوں نے قاسیم سلیمانی پر حملے کا حکم دیا اور حملہ کیا۔
انہوں نے نام ظاہر کیے بغیر 45 امریکیوں کو اس کارروائی میں ملوث قرار دیا اور کہا کہ ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سمیت تمام قانونی طریقے اختیار کریں گے۔
امریکا-ایران کشیدگی میں اضافہ
واضح رہے کہ قاسم سلیمانی کے ہلاکت کے بعد 21 جنوری 2020 کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا تھا اور ملک میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو بہت پہلے ہی قتل کر دینا چاہیے تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'قاسم سلیمانی سے بہت سال پہلے ہی نمٹ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کو مارنے کی سازش کر رہے تھے لیکن وہ پکڑے گئے'۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان
علاوہ ازیں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کا مقصد ایک 'انتہائی حملے' کو روکنا تھا جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو خطرہ لاحق تھا۔
اس سے قبل ایران میں امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جمکران مسجد کے گنبد پر سرخ پرچم لہرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قدیم ایرانی تہذیب میں سرخ پرچم لہرنے کا مقصد 'جنگ یا جنگ کی تیاری' سمجھا جاتا تھا۔