پاکستان

دوا سازوں کا کورونا ویکسین کی تیاری کیلئے لائسنس حاصل کرنے پر زور

پاکستان کی آبادی محض ایک کروڑ نہیں ہے اس لیے ہمیں ویکسین کی تیاری شروع کرنے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت ہے، عائشہ حق

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک بھر میں ویکسین لگانے کے سیلز قائم کرنے کا فیصلہ کیا وہیں دوا ساز کمپنیوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ پاکستان کی پوری آبادی کے لیے ویکسین درآمد کرنے میں برسوں لگ جائیں گے اس لیے مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری کے لائسنس جاری کیے جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹیمی حق نے بتایا کہ دینا میں صرف 4 دوا ساز کمپنیوں نے اپنی ویکسین مؤثر ہونے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی آبادی محض ایک کروڑ نہیں ہے اس لیے ہمیں ویکسین کی تیاری شروع کرنے کے لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیوں دوسری صورت میں اس کی عدم دستیابی اور شدید طلب کی وجہ سے ویکسین کے حصول میں برسوں لگ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ویکسینیشن کیلئے ڈسٹرکٹ اور تعلقہ ہسپتالوں میں ہیلتھ سینٹرز قائم کیے جائیں گے

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ملک میں ویکسین تیار کرنے کے قابلیت اور صلاحیت رکھتا ہے ہمیں صرف ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی نے اس کے فارمولے کے تحت ویکسین تیار کرنے کے لیے لائسنس لینا پڑے گا۔

عائشہ حق کا کہنا تھا کہ بھارت ویکسین کی 32 کروڑ خوراکیں تیار کرنے والا ہے اور دعویٰ کیا کہ پاکستان کو بھی یہی کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ویکسین باآسانی سے دستیاب ہوگی، پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح پہلے ہی ویکسین بک کروالینی چاہیے تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ہمیں شاید صرف چینی ویکسین ہی ملے اور دیگر ممالک سے ویکسین حاصل کرنے میں چند سال لگ سکتے ہیں اس لیے ہمیں ویکسین تیار کرنے کے لائسنس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین توقیر یو آئی حق نے کہا کہ چینی اور روسی ویکسین ممکنہ طور پر مارچ سے دستیاب ہوگی۔

مزید پڑھیں: چینی کمپنی سے کورونا ویکسین کی 11لاکھ خوراک کی ایڈوانس بکنگ کا فیصلہ

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'نجی شعبے کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تا کہ حکومت کا بوجھ کم ہوسکے، حکومت اسے مفت فراہم کرے گی لیکن نجی شعبہ اسے فروخت کرے گا۔

توقیر حق کا مزید کہنا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کو پاکستان کی 15 بڑی کمپنیوں کو فوری منظوری دینی چاہیے جو ویکسین برآمد کرنے ، محفوظ کرنے اور تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

154 ڈاکٹروں کا کورونا وائرس سے انتقال

دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کہا ہے کہ وبا کی دوسری لہر کے دوران طبی برادری پر کووِڈ 19 کا بڑھتا ہوا بوجھ ڈاکٹروں کے لیے مزید مہلک ہوتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا پاکستان میں اب تک 154 ڈاکٹرز کورونا وائرس کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

پی ایم اے کے مطابق نومبر سے شروع ہونے والی دوسری لہر میں 45 ڈاکٹر لقمہ اجل بنے جس میں 16 کا پنجاب، 14 کا سندھ، 13 کا خیبرپختونخوا اور 2کا آزاد جموں کشمیر میں انتقال ہوا۔

ایف بی آر پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولی کے ہدف سے 16 ارب روپے پیچھے

پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کردیا ہے، شاہ محمود

سال نو کے موقع پرکرائے گئے ماہرہ خان کے فوٹو شوٹ کے چرچے