پاکستان

سال 2020 میں خلع کے کیسز میں 700 فیصد اضافہ

2020 میں لگ بھگ 5 ہزار 198خواتین نے عدالتوں سے رجوع کیا، 4 ہزار 50 سے زائد کا تعلق کراچی کے 5 اضلاع سے ہے۔

کراچی: عالمی وبا کے دوران خاندانوں کو اکٹھا ہونے کا ایک غیرمعمولی موقع ملا لیکن اس دوران فیملی کورٹس میں دائر ہونے والے علیحدگی کے کیسز میں 700 فیصد اضافہ ہوا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 2 برس میں صوبے بھر میں خواتین کی جانب سے خلع (علیحدگی) کے لگ بھگ کے تقریباً 5 ہزار 891 کیسز دائر کیے گئے۔

اعداد و شمار سے دیکھا گیا کہ سال 2019 کے مقابلے میں سال 2020 کے دوران خواتین کی جانب سے گھریلو مسائل کے باعث شوہر سے خلع کے کیسز دائر کرنے میں 722 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں صوبے بھر میں خلع کے 632 مقدمات دائر کیے گئے تھے۔

تاہم سال 2020 میں لگ بھگ 5 ہزار 198خواتین نے شادی ختم کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا تھا جن میں سے 4 ہزار 50 سے زائد کا تعلق کراچی کے 5 اضلاع سے ہے۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2019 میں ضلع ملیر کی عدالتوں میں خلع کے 435 مقدمات درج ہوئے تھے جبکہ 2020 میں 387 مقدمات درج ہوئے۔

ضلع غربی میں سال 2019 کے 98 کے مقابلے میں 2020 میں 505 مقدمات درج ہوئے، علاوہ ازیں ضلع جنوبی میں 2019 میں 154 مقدمات درج ہوئے جبکہ سال 2020 میں 422 مقدمات درج ہوئے تھے۔

ضلع شرقی میں سال 2019 میں 259 کیسز کے مقابلے میں سال 2020 میں ایک ہزار 249 کیسز درج کیے گئے۔

جب خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام، امتیاز لیتا ہے اور اگر شوہر ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوں تو خاتون کو شوہر سے طلاق (خلع) لینے کی اجازت دیتا ہے۔

وکلا کا کہنا تھا کہ خواتین کی اپنے شوہروں سے علیحدگی کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ان کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔

تاہم ایڈووکیٹ صائمہ قریشی، جو خاندانی قانونی چارہ جوئی کی ماہر ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں شوہر اپنی بیویوں کی دیکھ بھال سے متعلق سماجی فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں شادی کے بعد پرتعیش زندگی کا خواب دیکھتی ہیں جیسے وہ گلیمرس ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں دیکھتی ہیں، حقیقی زندگی بہت مختلف اور مشکل ہے۔

عالمی وبا کے اثرات

سال 2020 میں دہائیوں میں مشکل ترین سال ثابت ہوا ہے، کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں کی صورت میں بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہیں۔

عالمی وبا کے دوران ملک گیر لاک ڈاؤن سے ہزاروں لوگ بالخصوص ان پڑھ کم آمدن والے افراد متاثر ہوئے جس سے بیروزگری کی شرح میں اضافہ ہوا۔

تاہم عالمی وبا کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں رہنے اور اہلخانہ کے ساتھ وقت گزارنے کا غیرمعمولی موقع ملا کیونکہ معاشرے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خوف پھیل گیا تھا۔

صائمہ قریشی نے کہ اس سے بھی گھریلو مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خاندانوں کے مردوں کی نوکری ختم ہوئی اور انہوں نے 24 گھنٹے گھر پر گزارنا شروع کیے تو ظاہر ہے اس سے لڑائیاں ہوئی کیونکہ وہ گزارا نہیں کرپارہے تھے۔

لاک ڈاؤن نے لوگوں کو سماجی فاصلہ اپنانے پر بھی مجبور کیا جس کا مطلب ہے کہ خاندانوں نے اکثر وقت گھروں پر گزارا۔

انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ مردوں کے گھر پر رہنے سے گھریلو تشدد کے واقعات میں کردار ادا کیا جس کی وجہ سے خواتین نے خلع کے لیے رجوع کیا۔


یہ خبر 5 جنوری، 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

معلوم نہیں ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، بلاول

کان کنوں کے لواحقین کا اپنے پیاروں کی میتیں دفنانے سے انکار

پرتشدد پالیسیوں کے باعث اسرائیلی فوج میں شمولیت سے انکار کرنے والی لڑکی