چین کب تک اپنے لوگوں کی آواز دباتا رہے گا؟
کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں معلومات کا بہت فقدان پایا جاتا تھا۔ اس وائرس کے پھیلاؤ، اس کی علامات اور اس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں بہت ہی کم معلومات موجود تھیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ چینی حکومت حالات کی سنگینی کو دنیا سے چھپا رہی ہے۔ چین کا ووہان شہر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ وائرس چمگادڑوں سے چوہوں اور ان سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ یہ حالیہ تاریخ کی سب سے مہلک منتقلی ثابت ہوئی۔ وائرس کے ابتدائی دنوں میں یہ بات ایک معمہ بنی ہوئی تھی کہ ووہان میں کیا ہورہا ہے۔ عام افراد، وبائی امراض کے ماہرین اور سیاسی قائدین سب ہی معلومات کے متلاشی تھے۔
خوف اور تاریکی کے اس ماحول میں ایک چینی خاتون ژینگ امید کی کرن ثابت ہوئیں۔ ژینگ شنگھائی میں رہنے والی ایک وکیل تھیں جو وبا کے ابتدائی دنوں میں سیٹیزن جرنلسٹ بن کر ووہان پہنچیں۔
ژینگ نے وبا سے متاثرہ اس شہر کی فلم بندی کرکے ان ویڈیوز کو آن لائن پوسٹ کردیا تاکہ باقی ملک اور دنیا بھر کے لوگ یہ جان سکیں کہ اس شہر میں کیا ہورہا ہے۔ ان کی بنائی گئی ویڈیوز میں اسپتالوں اور کلینک میں مریضوں کے ہجوم کو دکھایا گیا۔ انہوں نے اپنی ویڈیوز میں لاک ڈاؤن کی معمولی خلاف ورزی کرنے پر پولیس کی جانب سے لوگوں کو سزا دیتے ہوئے بھی دکھایا۔
مزید پڑھیے: اب کون کرے گا راج؟ چین یا امریکا؟
ژینگ، چینی حکومت، اس کے خفیہ طریقوں اور وبا کے دوران اس کی بدانتظامی کی ناقد تھیں۔ 37 سالہ ژینگ نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا کہ ’حکومت صرف لوگوں کو ڈرا کر اور دھمکیاں دے شہر کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، اور یہ ملک کا بہت بڑا المیہ ہے‘۔ اس کے کچھ دن بعد ہی وہ منظر سے غائب ہوگئیں، ان کو بھیجے جانے والے پیغامات کے جواب آنا بند ہوگئے اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ غیر فعال ہوگئے۔
آخرکار ان کے دوستوں کو یہ معلوم ہوا کہ ژینگ کو مئی کے مہینے میں گرفتار کرکے شنگھائی منتقل کردیا گیا ہے جہاں انہیں غلط معلومات اور جھوٹ پھیلانے کے الزامات میں قید کردیا گیا ہے۔ ژینگ کے وکیل کا کہنا ہے کہ جیل میں انہوں نے بھوک ہڑتال کردی تھی۔ اس کے جواب میں حکومتی اہلکاروں نے انہیں غذا کی نالی لگا کر زبردستی خوراک دینا شروع کردی۔ ان کے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا تاکہ وہ غذا کی نالی نکال نہ سکیں۔
جب کورونا شدت کے ساتھ لوگوں کو اپنا شکار بنا رہا تھا اسی دوران 28 دسمبر 2020ء کو ژینگ کو شنگھائی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہیں عدالت میں وہیل چیئر پر لایا گیا اور وہ مشکل سے ہی پہچان میں آرہی تھیں۔ ژینگ نے بہت مختصر بات کی جس میں انہوں نے کہا کہ عوام کی آواز کو خاموش نہیں کروانا چاہیے۔
ژینگ کی یہ حالت بھی عدالت کو فیصلہ سنانے سے نہ روک سکی۔ ژینگ پر جو الزامات عائد ہیں ان کا ترجمہ ’جھگڑا کرنا اور نقص امن کا باعث بننا‘ کیا جاسکتا ہے۔ نیویارک ٹائم کا کہنا ہے کہ چین یہ الزام ہر اس شخص پر عائد کرتا ہے جو حکومت پر تنقید کرتا ہے۔
دکھاوے کے اس ٹرائل اور مقدمے کی سماعت میں بہت کم لوگوں کو شرکت کی اجازت تھی۔ اس سماعت میں جج نے ژینگ کو مجرم قرار دے دیا اور یوں انسانی تاریخ کے مشکل ترین وقت میں دنیا کو بہت اہم اور جان بچانے والی معلومات فراہم کرنے کے ’جرم‘ میں ژینگ کو 4 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
ژینگ کی والدہ نے مئی میں ہونے والی گرفتاری کے بعد سے اپنی بیٹی کو نہیں دیکھا تھا۔ جب جج نے ژینگ کو سزا سنائی تو ان کی والدہ رو پڑیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ چین میں چلنے والے دیگر کئی مقدموں کی طرح اس مقدمے کا فیصلہ بھی پہلے ہی ہوچکا تھا۔ ژینگ نے چینی حکومت پر تنقید کی ہمت کی تھی اور انہیں 4 سال قید میں رہ کر زبردستی دی جانے والی خوراک کا سامنا کرکے اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
ژینگ کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے چینی حکومت کی صلاحیت پر تنقید کی اور انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم ان میں سے اکثر کو رہا کردیا گیا ہے لیکن ژینگ کو سخت ترین سزا دی گئی کیونکہ وہ یہ بات ماننے سے انکاری تھیں کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہے۔
یقیناً انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ ژینگ نے اس وقت ہمیں کورونا وائرس کے عالمی مرکز، ووہان کی جھلکیاں دکھائیں جب کئی لوگوں کو یہ بات بھی حتمی طور پر معلوم نہیں تھی کہ وہاں کوئی نیا وائرس موجود ہے۔
اگرچہ چینی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں چینی حکومت اس بات کا اعتراف کرے گی یا نہیں کہ یہ وائرس ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے شروع ہوا۔ وہ اس بات کو ہمیشہ نہیں چھپا سکتے، ویسے بھی ژینگ کی بنائی ابتدائی ویڈیوز نے چینی حکومت پر اتنا دباؤ ضرور ڈالا ہے کہ وہ سچ سامنے لانے پر مجبور ہوگی۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس کہیں جنگلی حیات کا جوابی وار تو نہیں؟
ایک دور تھا کہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی فریم ورک اس بات کی ضمانت دیتا تھا کہ ژینگ جیسی خواتین، جنہوں نے انسانیت کے لیے گراں قدر خدمت انجام دی ہیں، ان کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انسانی حقوق کے کارکنان یقیناً اس بات کی کوشش کریں گے کہ ژینگ کے مقدمے کو دنیا کے سامنے لائیں اور چینی حکومت سے ان کی رہائی کا مطالبہ کریں۔
لیکن اس نظام کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یورپی یونین نے ژینگ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر چینی حکومت پر تنقید تو کی لیکن اس بیان کے ایک ہفتے بعد ہی اس نے چینی حکومت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر دستخط بھی کردیے۔
لوگ اکثر یہ بات کرتے ہیں کہ چین عالمی تسلط حاصل کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ چین دنیا کی فلاح کو اپنے مفادات سے بالاتر رکھنے والے بہادروں کو سزا دینے میں بھی سب سے آگے ہے۔
ژینگ کی کہانی سے چینی حکومت کی جانب سے دبائی جانے والی ’سچائیوں‘ کے بارے میں سوالات اٹھنے چاہئیں۔ ایک ایسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت جسے سچائی سے زیادہ دنیا کے سامنے اپنی شبیہہ کی فکر رہتی ہو اس کے لیے اپنی بقا سے ضروری کچھ نہیں ہوگا۔
یہ مضمون 6 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔