دنیا

پرتشدد واقعات کے بعد امریکی کانگریس نے بائیڈن کی فتح کی توثیق کردی

کیپیٹل ہل پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے دھاوا بولے جانے کے بعد سینیٹ کے اجلاس کو دن کے وسط میں مؤخر کردیا گیا تھا۔

حالیہ امریکی تاریخ کے پرتشدد دنوں میں سے ایک کے دوران امریکی کانگریس نے جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں فتح اور امریکا کا 46واں صدر بنانے کی توثیق کردی ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل امریکا میں دن کا آغاز ہوا تھا تو ہنگامہ آرائی اور پرتشدد واقعات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی ایوان نمائندگی کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت متعدد زخمی بھی ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا، 4 افراد ہلاک

اس ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں سینیٹ میں موجود قانون دانوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کردیا تھا اور ایوان میں کارروائی کو روک دیا گیا تھا۔

تاہم واشنگٹن کے میئر میوریئل براؤن کی جانب سے کرفیو اور 15 دن کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد قانون دانوں کی ایوان میں دوبارہ واپسی ہوئی تھی۔

واشنگٹن پولیس کے سربراہ رابرٹ جے کونٹی نے بدھ کی رات نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ ایک خاتون گولی لگنے سے ہلاک ہو گئیں جبکہ ہجوم کی جانب سے سڑکیں بلاک کیے جانے کے سبب بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے طبی مسائل سے تین افراد بھی موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ مشتعل مظاہرین کے حملوں میں 14 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

پولیس نے 52 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں سے اکثر کو کرفیو کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا جبکہ انہوں نے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں کے ہیڈ کوارٹرز کے پاس سے دو پائپ بم بھی برآمد کیے۔

یہ بھی پڑھیں: کیپیٹل ہل واقعہ، جوبائیڈن نے ٹرمپ کو بغاوت کا مرتکب قرار دے دیا

پولیس سربراہ نے مزید کہا کہ پولیس نے پستول، گن اور دھماکا خیز مواد سمیت ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گڑبڑ کا آغاز دوپہر پونے تین بجے ہوا جب ہجوم نے کیپیٹل ہِل کی سیکیورٹی پر دھاوا بول دیا اور یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کو کیپیٹل ہل کے علاقے سے نکالے جانے کے بعد قانو دانوں نے توثیق کے عمل کا دوبارہ سے آغاز کیا، سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں نے دو مرتبہ ووٹنگ کرتے ہوئے ایریزونا اور پنسلوینیا میں الیکشن نتائج میں تبدیلی کی کوششوں کو مسترد کردیا۔

نائب صدر اور سینیٹ کے صدر مائیک پینس نے تمام جوائنٹ سیشنز کی صدارت کی۔

ریپبلکن سینیٹرز نے مبہم نتائج کی حامل چھ ریاستوں ایریزونا، جیارجیا، مشیگن، نیواڈا، پینسل وینیا اور وسکونسن میں الیکٹورل ووٹس واپس کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، حتیٰ کہ حملے کے بعد بھی ایوان میں موجود درجنوں ریپبلکن اراکین نے انتخابی نتائج کو منسوخ کرانے کے اپنے منصوبے پر عمل جاری رکھا لیکن بدھ کو مشتعل ہجوم کی جانب سے دھاوا بولے جانے کے بعد سینیٹرز نے ان دو اعتراضات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیپیٹل ہل کیا ہے اور وہاں مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟

اس سے قبل 93 سینیٹرز نے ایریزونا کے اعتراض کو مسترد کردیا اور اس سلسلے میں صرف چھ نے ووٹ کیا جبکہ اس کے بعد ووٹرز نے 7 کے مقابلے میں 92 ووٹس سے پینسلوینیا کے اعتراض کو بھی مسترد کردیا۔

435 اراکین کے ایوان میں 282 نے اعتراضات مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 138 نے اس کے حق میں ووٹ دیا، اس سے قبل 302 نے ایریزونا کے اعتراض کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ 82 نے اس کے حق میں رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔

کسی ڈیموکریٹ نے ان اعتراضات پر ووٹ نہیں دیا تھا جبکہ درجنوں ریپبلیکنز نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

رات گئے سیشن 3 بجکر 27 منٹ پر شروع ہوا اور آدھے گھنٹے میں کارروائی مکمل کر لی، جب سیشن کا آغاز ہوا تو چھٹی متنازع ریاست وسکونسن پر کسی بھی سینیٹر نے اعتراض کے سرٹیفکیٹ پر دستخط نہیں کیے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 538 الیکٹورل ووٹس میں سے بائیڈن اور ہیرس نے 306 ووٹ حاصل کیے جبکہ اس کے مقابلے میں ٹرمپ اور پینس نے 232 ووٹ لیے۔

تصاویر دیکھیں: امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا ایوانِ نمائندگان پر دھاوا

پینس نے بائیڈن اور ہیرس کو 2020 انتخابات کا فاتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

اجلاس کے بعد امریکی سینیٹ کے چیپلین نے دعا کرائی اور بدھ کو پرتشدد جھڑپوں میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔

ریپبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ جو بائیڈن اور کمالہ ہیرس قانونی طور پر منتخب ہوئے اور امریکا کے صدراور نائب صدر بن جائیں گے۔

گوکہ اب بائیڈن 20 جنوری کوامریکی تاریخ کے 46ویں صدر بن جائیں گے لیکن پرتشدد واقعات نے سرٹیفکیشن کے عمل کو دھندلا دیا۔

ریپبلیکن مٹ رومنی نے کہا کہ آج جو ہوا وہ امریکا کے صدر کی جانب سے بغاوت میں اکسائے جانے کا نتیجہ تھا۔

مزید پڑھیں: ڈیموکریٹ رکن کا سینیٹ کی دوسری نشست پر بھی فتح کا دعویٰ

سینیٹ میں اکثریت کے حامل رپبلیکنز کے رہنما مچ میک کونیل نے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہماری جمہوریت میں تعطل ڈالنے کی کوشش کی اور وہ ناکام ہو گئے۔

جب سینیٹ کا سیشن شروع ہوا تو اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان پر زور دے رہے تھے کہ وہ 20 جنوری کو نئے صدر کو لانے کے لیے جاری عمل کو روک دیں۔

ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر چڑھائی کی اجازت اس وقت دی جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ پینس اور میک کونیل سمیت لوگ ان کی وائٹ ہاؤس برقرار رکھنے کی کوشش میں ان کا ساتھ دینے کے بجائے آئین کی پیروی کریں گے۔

نائب صدر مائیک پینس نے دوبارہ سے سیشن کے آغاز کے موقع پر مظاہرین کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ 'آپ جیت نہیں سکے'۔

یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا احتجاج، چاقو کے حملے میں متعدد افراد زخمی

انہوں نے کہا کہ یرا یہ ماننا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری اور آئین کا دفاع میا فرض ہے اور اسی وجہ سے میں میں یکطرفہ طور پر اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے بائیڈن کو صدر بنانے والے الیکٹورل ووٹ کو مسترد نہیں کر سکتا۔

جب سینیٹرز پولیس کے حفاظتی حصار میں سینیٹ میں واپس آئے تو میک کونیل نے کہا کہ امریکی سینیٹ کو ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا، ہمیں دھمکیاں، ٹھگ اور بلوائی اس چیمبر سے باہر نہیں رکھ سکتے۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیمو کریٹک پارٹی کے رکن جمی گومز نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح حکومت کا تختہ الٹنے کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح جمہوریت کی موت ہوتی ہے۔

لڑکی 30 سال تک شادی کے بغیر بھی خوش رہ سکتی ہے، مہوش حیات

راولپنڈی: گھر سے ماں اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کی لاشیں برآمد

ژینگ: جنہوں نے انسانیت کی بقا کو اپنی حفاظت پر ترجیح دی