پاکستان

بہن، بھائیوں کو نوزائیدہ بچے سے جذباتی طور پر کیسے جوڑیں؟

والدین کی زندگی کا ایک اہم اور دشوار پہلو، نئے بچے سے متعلق موجودہ بچوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

'میرا منّا بھائی کب آئے گا۔۔۔ماما؟'، 3 سالہ حفصہ نے اپنی امّی سے پوچھا تو انہیں سمجھ نہ آیا کہ اس کی عمر کے حساب سے آنے والے بچے کے حوالے سے کیسے اور کتنا بتایا جائے کیونکہ گھر کا ہر فرد بچے کی آمد سے متعلق الگ کہانی بیان کرتا تو بچی کا ذہن پریشان ہوجاتا۔

والدین کی زندگی کا ایک اہم اور نسبتاً دشوار پہلو، نئے بچے سے متعلق موجودہ بچوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس مرحلے پر ذرا سی لاپروائی عموماً زندگی بھر کے لیے بہن بھائیوں کے تعلقات میں حسد، مقابلے بازی اور جھگڑوں کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔

اس تحریر کا مقصد والدین کو آنے والے مہمان کے لیے ایک پُرمسرت اور خوشگوار ماحول کی فراہمی اور بچوں کو اس سے جذباتی طور پر جوڑنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

کب اور کیسے بتائیں؟

بچوں کو آپ جتنا جلدی بتائیں اتنا ہی بہتر ہے، ماہرین کی رائے کے مطابق جیسے ہی ماں میں جسمانی تبدیلی کا آغاز ہو، وہی وقت 'بتانے کے لیے بہترین' ہے۔

تاہم اگر بچہ بہت چھوٹا ہے اور اس کی اچھل کود سے ماں کی صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو جلدی بتا دینا بہتر ہوتا ہے۔

چائلڈ مائنڈ انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر مینڈی سلور مین مشورہ دیتی ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ بچوں میں خوامخواہ کا تجسس بیدار ہونے سے پہلے اس موضوع پر بات کر لی جائے اور بغیر کسی تاخیر کے بچے/بچوں کو بتا دیا جائے۔

تاہم اس کے ساتھ ہی بچوں کی جانب سے آنے والے سوالات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر مینڈی کے مطابق 'اہم بات یہ ہے کہ والدین، بچوں کا ذہن اس بات کے لیے تیار کریں کہ یہ اضافہ گھر کے لیے بہت خوشی کا باعث ہوگا'۔

اس کے ساتھ ہی الفاظ کا انتخاب اور بتانے کا طریقہ بھی بچوں کی عمر اور دلچسپی کے مطابق رکھنا چاہیے تاکہ ان کے ذہن میں نئے آنے والے فرد کے حوالے سے ایک 'مثبت اور دلچسپ تصویر' بن سکے۔

مثلاً بچوں سے ایسے جملے کہے جاسکتے ہیں:

حد سے زیادہ تذکرہ نقصان دہ ہے!

ہر چند کہ نئے بچے کی آمد کے مثبت پہلو زیادہ ہیں تاہم ساتھ ہی پہلے سے موجود بچوں کے لیے چند دشواریوں کا آغاز بھی ہو رہا ہوتا ہے۔

اس حوالے سے بھی بچوں کی ذہن سازی کے اقدامات اٹھانے شروع کر دینے چاہئیں۔

مثلاً ان سے کچھ اس طرح کے جملے کہے جاسکتے ہیں:

ساتھ ہی بچوں کو زبانی اور عملی طور پر اپنے جذباتی اور ذہنی تعلق کا احساس بھی دلاتے رہیں تاکہ ان کے اندر جلن کے جذبات پروان نہ چڑھیں۔

معیاری وقت ساتھ گزاریں

کسی بھی عمر کے بچے کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ بچے/بچی کو تحفظ اور تعلق کا احساس دلائیں۔۔۔ چاہے یہ چند منٹ کے لیے کھیلنا، کہانی سنانا یا کتاب پڑھ کر سنانا ہی کیوں نہ ہو۔

ماں اور باپ دونوں کو اس حوالے سے بچوں کے لیے اپنا معیاری وقت وقف کرنا چاہیے۔

معیاری وقت اور اس میں کی جانے والی سرگرمی نئے بچے کی آمد سے پہلے شروع کی جائے اور اس کے بعد بھی جاری رہے، یوں بڑے بچے کا ذہن اسے، اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ والدین ہمیشہ اس کے ساتھ اور اس کے لیے موجود ہیں۔

ممکنہ مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی

ہر طرح کی تیاری کے باوجود امکان موجود ہیں کہ نوزائیدہ بچے کی گھر آمد کے بعد والدین کو مختلف طرح کے مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔

عموماً اس کی وجہ والدین کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے، مثلاً اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے والا بچہ، اپنی چھوٹی بہن کی آمد کے بعد ماں کے ہاتھ سے کھانے کی ضد کر سکتا ہے۔

اس بچگانہ عمل کو نفسیات کی زبان میں Regression کہتے ہیں، ماہرینِ نفسیات کے مطابق بچوں کا اس طرح کا رویہ بالکل فطری ہوتا ہے کیونکہ اس حکمت عملی کے ذریعے بچے والدین کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کے اندر ضد، غصے، چڑچڑاپن جیسی کیفیات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

اسکول جانے والے اور بڑے بچوں کے اندر وقت اور حقوق میں برابری کا احساس زیادہ ہوتا ہے تو ان کے لیے یہ بات قبول کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے کہ 'کسی دوسرے بچے' کو زیادہ وقت اور توجہ کیوں دی جا رہی ہے، اور یہی احساس ان بچوں کو منفی رویہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔

اس عمر کے بچوں کو شراکت اور تعلق کا احساس دلانے کا سب سے اہم طریقہ انہیں مختلف طرح کے کاموں کا حصہ بنانا ہوتا ہے جس کے ذریعے انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہو۔

بچوں کے اچھے رویے کو کھل کر سراہنا، تعریف کرنا بھی انہیں بہتر کیفیت کی جانب لاتا ہے۔

مختلف عمر کے بچوں کو بتانے، جذباتی طور پر جوڑنے کی تدابیر

ایک سے 2 سال کے بچے

1۔ اس عمر کے بچے ذہنی طور پر عموماً اتنے ہوشیار نہیں ہوتے کہ نئے آنے والے مہمان پر بہت زیادہ سوچ سکیں تاہم ان کے ساتھ پُرجوش انداز میں نئے بچے کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔

2۔ بچوں کی تصاویر پر مبنی کتب دکھائیں، یہاں تک کہ وہ 'بہن'،'بھائی'، اور 'نیا بےبی' جیسے الفاظ سے واقف ہو جائیں۔

3۔ نئے بچے کی آمد پر ایک سے 2 برس کے بچوں کے لیے کچھ خاص منصوبہ بندی کریں جیسا کہ انہیں ان کی پسندیدہ جگہ پر لے جانا، کوئی اچھا کھلونا بطور تحفہ دینا یا رشتے داروں کی دعوت تاکہ ان کے ذہن میں 'نئے مہمان' کا مثبت تاثر بن جائے۔

4۔ اگر گھریلو ماحول اجازت دے تو بچے کا نام پہلے رکھ کر اسے گھر میں موجود بچوں سے مانوس کردینا چاہیے۔

2 سے 4 سال کے بچے

1۔ اس عمر کے بچے والدین کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، والدین کی توجہ بٹنے کا تجربہ قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

گھر کے ماحول میں جہاں یہ بچے ایک بادشاہ یا ملکہ کی طرح حکومت کر رہے ہوتے ہیں، یہ تبدیلی ان کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق اس عمر کے بچوں کے لیے بہترین جملے کچھ ایسے ہو سکتے ہیں:

'بیٹا خوش ہو، اب تمہاری فیملی بڑی ہونے والی ہے'،

'آپ سے پیار کرنے والا بھائی یا بہن آنے والے ہیں'۔

2۔ ان کے پسندیدہ کارٹون سے جوڑ کر بات کریں جہاں ٹی وی پر دکھائی جانی والی فیملی میں نئے بچے کی آمد پر سب خوش ہو رہے ہوں۔۔۔۔اسی طرح بورڈ گیمز، تصاویر والی کتب کے ذریعے ان کے سونے کے وقت کو بہتر جذباتی تعلق کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

3۔ ایک گڈا یا گڑیا (ڈول) کے ذریعے ان کے ذہن میں 'بے بی' کے حوالے سے مثبت تصویر بنانے کی سرگرمی بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

4 سے 5 سال کے بچے

1۔ اس عمر کے بچے کو 'تفریح' کا عنصر تحریک دیتا ہے، انہیں بتائیں کہ آنے والے بچے کے ساتھ وہ مزے سے کھیل سکتے ہیں ۔۔۔مگر امی یا ابو کی موجودگی میں۔

اس کے ساتھ یہ جملہ بار بار کہنا ضروری ہے کہ 'بےبی' کو زیادہ وقت اور توجہ کی ضرورت ہے تاہم آپ کے امی ابو سب بچوں سے یکساں محبت کرتے ہیں۔

2۔ ان کے پسندیدہ کارٹون، شوز کے ذریعے بچوں کو نئے مہمان سے جذباتی طور پر جوڑا جا سکتا ہے۔

اسکول جانے والے بچے

1۔ ان کی عمر اور دلچسپی کے مطابق آنے والے بچے سے متعلق بات کریں، ساتھ ہی یہ بتائیں کہ اس کے آنے سے پورے گھر کو کیا فوائد ہوں گے اور کیا ممکنہ مشکلات ہو سکتی ہیں۔

2۔ انہیں بچے کے کاموں کے حوالے سے ذمہ داری دیں جیسے کپڑے دینے، پہنانے، صفائی ستھرائی وغیرہ ۔۔۔۔۔ جو بھی کام سر انجام دیں ان کی مدد پر ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں اور یہ کہتے رہیں کہ وہ 'آئیڈیل بڑے بھائی/بہن' ہیں۔

3۔ کسی قریبی رشتے دار کے گھر میں وقت گزارنے دیں جہاں کوئی گود کا بچہ موجود ہو تاکہ وہ بچوں سے جذباتی تعلق بنا سکیں، انہیں پکڑنے اور خیال رکھنے کی تربیت حاصل کر سکیں۔


فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کے ساتھ farhanppi@yahoo.com اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔