نقطہ نظر

پاکستانی برآمدات کے لیے مشکل وقت

اہم بات یہ ہے کہ برآمدات میں ہونے والے اضافے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور یہ پوچھا جارہا ہے کہ یہ اضافہ کب برقرار رکھا جاسکتا ہے؟

ابھی تو خوشی کے شادیانوں کی گونج تھمی نہیں اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ خوشی، شرمندگی میں بدلنے والی ہے۔ ایک طویل عرصے سے حکومت کی جانب سے ہمیں یہ کہانی سنائی جارہی تھی کہ دسمبر کے مہینے میں برآمدات میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کے حمایتی یہ کہہ رہے تھے کہ پچھلے کئی سالوں سے اتنا زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ 7 جنوری کو وزیرِاعظم نے ٹوئیٹ کی کہ ’میں اس کامیابی پر برآمد کنندگان اور وزارتِ تجارت کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں‘۔

ظاہر ہے کہ بعد میں جب اسٹیٹ بینک نے درست اعداد و شمار جاری کیے تو ان کے مطابق یہ اضافہ 18 نہیں بلکہ 6.7 فیصد (گزشتہ دسمبر کی نسبت) تھا۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیے: کیا پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری واقعی ترقی کر رہی ہے؟

حکومت کے حمایتی یہ دلیل دیں گے اسٹیٹ بینک ملک میں آنے والے ڈالرز کی مالیت پر انحصار کرتا ہے جبکہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس بندرگاہوں سے جانے والے سامان کی کسٹم ویلیو کی مدد لیتا ہے اور اس سامان کی مکمل قیمت تاخیر سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے اعداد و شمار میں فرق ہوتا ہے۔ اس دلیل کو تسلیم کرنا بہت مشکل کام لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کے لیے یہ اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔

اس وقت اہم بات یہ ہے کہ برآمدات میں ہونے والے اضافے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں اور یہ پوچھا جارہا ہے کہ یہ اضافہ کب تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں اور سب کی سب اہم ہیں۔

اس سال کپاس کی فصل میں بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ملکی ضرورت ڈھائی کروڑ بیلز کی ہوتی ہے جبکہ اس سال صرف 60 لاکھ بیلز ہی پیدا ہوسکی۔ ضرورت کی باقی کپاس درآمد کرنا ہوگی اور اس کام کے لیے 2 ممالک بہت اہم ہیں، ایک بھارت اور دوسرا چین۔ تجارتی پابندیوں کی وجہ سے بھارت سے کپاس کی برآمد مشکل ہے اور اگر چین کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی ایک مسئلہ موجود ہے۔

13 جنوری کو امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے محکمے نے ’چین کے سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے میں پیدا ہونے والی کپاس‘ کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اپنے ودھ ہولڈ آرڈر میں س بی پی کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام اشیا کو ضبط کرلیں گے جن میں چینی علاقے سنکیانگ کی کپاس استعمال ہوگی۔ اس حکم کے پیچھے چین میں ’جبری مشقت اور قیدیوں سے کام کروانے کی رپورٹس ہیں‘۔

اس حکم کی بنیاد دسمبر 2020ء میں جاری ہونے والا ایک اور بل بنا جس میں خاص طور پر صرف ایک کمپنی یعنی سنکیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کارپوریشن کی کپاس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 13 جنوری کے حکم نے اس پابندی کو ایک کمپنی سے بڑھا کر پورے سنکیانگ تک پھیلا دیا ہے۔ کپاس کی عالمی پیداوار کا 20 فیصد چین میں پیدا ہوتا ہے۔ چین میں گزشتہ سال تقریباً 60 لاکھ ٹن کپاس پیدا ہوئی تھی جس کا 84 فیصد حصہ یعنی 5 لاکھ ٹن کپاس صرف سنکیانگ صوبے میں پیدا ہوئی تھی۔

برآمد کنندگان کو اب یہ مسئلہ درپیش ہے کہ خریدار آرڈر دینے سے پہلے ان سے کپاس کی سپلائی چین کے ثبوت مانگ رہے ہیں۔ دسمبر میں 14 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی اضافی (گزشتہ سال کے دسمبر کی نسبت) برآمدات میں سے 9 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی برآمدات امریکا بھیجی گئی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک کپاس کی شدید قلت کا شکار ہے، کپاس فراہم کرنے والے 2 بڑے مماک کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔

ابھی برآمد کنندگان اس خبر کے اثرات سے ہی نہیں نکلے تھے کہ انہیں ایک اور جھٹکا لگا۔ چند ہفتے قبل کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے صنعتوں میں موجود بجلی گھروں کے لیے گیس کے نئے کنکشن دینے اور مستقبل میں گیس کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب حکومت ایک نئی ٹیکسٹائل پالیسی پر غور کر رہی ہے۔ کاروباری افراد نے اس پالیسی کے حق میں اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار لگوائے کیونکہ اس پالیسی میں انہیں اگلے 5 سال تک گیس 786 روپے فی یونٹ اور آر ایل این جی 6.5 ڈالر پر فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھا یہ سبسڈی جس کے تحت انہیں کم قیمت پر گیس اور بجلی مل رہی ہے پالیسی کی شکل اختیار کرکے اگلے 5 سال تک برقرار رہیں گی لیکن حکومت کی سوچ بدل گئی۔

صنعتوں کے حوالے سے معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے ہمیں بتایا ہے کہ نئی پالیسی تاخیر کا شکار ہے کیونکہ چند مٹھی بھر اراکین (جو اس منصوبے کا ذمہ دار تابش گوہر کو سمجھتے ہیں) بجلی گھروں کو گیس کی فراہمی پر پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔

نجی بجلی گھروں کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا منصوبہ کئی مہینوں سے زیرِ بحث تھا لیکن جنوری تک جس ٹیکسٹائل پالیسی کو چلایا گیا اس میں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں تھا۔ اس وجہ سے برآمد کنندگان کو اگر یہ احساس ہورہا ہے کہ اس منصوبے کے اعلان اور نفاذ کے ذریعے حکومت نے ان کو دھوکہ دیا ہے تو وہ اس احساس میں کچھ غلط بھی نہیں ہیں۔

مزید پڑھیے: بہتر ہوتی ہوئی معیشت کا سراب

مثال کے طور پر مجھے بتایا گیا کہ کراچی کے علاقے سائٹ میں 474 کنکشن کاٹے گئے جس کے بعد حکومت کی توانائی اور ایندھن کی ٹیموں نے صنعتکاروں سے ملاقات کی۔ اس میں ملاقات ان کنکشن کی بحالی کا حکم تو دے دیا گیا لیکن اس حکم پر ابھی عمل نہیں ہوا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ ایس ایس جی سی اب تک ’کے الیکٹرک‘ سے اس بات کا پتا لگانے میں مصروف ہے کہ کن صنعتوں کے پاس بجلی کا کنکشن موجود ہے اور کون سی صنعتیں مکمل طور پر نجی بجلی گھروں پر منحصر ہیں۔ صنعت کاروں کے مطابق صرف مؤخر الذکر ہی دوبارہ کنکشن کے حصول کے اہل ہیں۔ تاہم ہماری بیوروکریسی کے کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس کام میں بہت عرصہ لگے گا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی مراعات کو ختم کیا جائے یا کم از کم مالی کھاتوں پر سے اس کے اثرات ختم کیے جائیں جو ان مراعات کو ہی ختم کرنے کے مترادف ہے۔

حکومت برآمدات کو جس سطح پر ظاہر کر رہی تھی وہ اس سطح پر تھی ہی نہیں اور موجودہ غیر یقینی کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں کوئی امید بھی نہیں رکھی جاسکتی۔


یہ مضمون 4 فروری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔