دنیا

میانمار: فوجی حکومت نے مظاہروں، احتجاج کے انعقاد پر خبردار کردیا

فوجی حکومت نے آنگ سان سوچی کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مزید احتجاج نہ کریں۔

میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے اور آنگ سان سوچی کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والوں کو فوجی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ وہ مزید احتجاج نہ کریں۔

سیکیورٹی حکام ابھی تک عوام کے خلاف طاقت کے بدترین استعمال سے باز رہے ہیں لیکن پولیس نے بعض مقامات پر مظاہرین کے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے، خصوصاً نیپی دوو میں نیشنل ہائی وے پر مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

فوج نے گزشتہ ہفتے آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کرتے ہوئے ایک دہائی سے جاری عوامی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور اس اقدام کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

ملک بھر میں فوجی بغاوت کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور مظاہروں پر سرکاری ٹی وی نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ فوجی حکمرانی کی مخالفت غیر قانونی ہے۔

ٹی وی پر اینکر نے حکومتی فرمان پڑھتے ہوئے کہا کہ جو کوئی بھی ریاست کے استحکام، عوام کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق مؤثر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

گزشتہ ہفتے فوجی بغاوت کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے ریلی نکالی اور پیر کو ملک گیر ہڑتال کے ساتھ ساتھ اہم مقامات پر بڑے بڑے مظاہروں کے سلسلے میں احتجاجی تحریک کو نیا رنگ دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت: آنگ سان سوچی پر غیر قانونی آلات کی درآمد کے الزامات عائد

دارالحکومت اور تجارتی حب ینگون میں بڑے پیمانے پر احتجاج سے نظام زندگی درہم برہم اور ٹریفک کی روانی معطل ہو گئی اور پیر کو جاری احتجاج میں اتوار سے زیادہ عوام نے شرکت کی۔

مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر فوجی بغاوت کے خلاف نعرے درج تھے اور وہ اپنی لیڈر کی رہائی اور حکومت کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے۔

ملک گیر ہڑتال کی اپیل اس وقت کامیاب شکل اختیار کر گئی جب ٹیکسٹائل صنعت کے ملازمین، سرکاری ملازمین اور ریلوے کے عملے نے ینگون میں احتجاجاً کام کرنے سے انکار کردیا۔

ایک 28 سالہ فیکٹری ملازم نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام کا دن ہے لیکن ہم کام نہیں کریں گے بے شک ہماری تنخواہ ہی کیوں نہ کٹ جائے۔

تعمیراتی صنعت کے 18 سالہ ورکر چٹ من نے آنگ سان سوچی سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی بغاوت کی وجہ سے میں ایک ہفتے سے بے روزگار ہوں اور اب میری بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اسی طرح ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں بھی مظاہرے کیے گئے اور وہاں بھی مظاہرین نے آن سان سوچی کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے اور حکومت کا تکتہ الٹنے والے عناصر کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: میانمار: انٹرنیٹ سروس معطل، ہزاروں افراد کا فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ

پولیس نے ہائی وے پر جمع عوام کو منتشر کرنے کی کوشش کی کیونکہ خدشہ تھا کہ شاید سوچی کو وہیں نظربند کیا گیا ہے۔

عوام کو پانی کی توپ سے منتشر کرنے کی کوشش میں دو افراد زخمی ہو گئے جبکہ اس کے علاوہ چین کی سرحد سے متصل ملک کے جنوبی شہروں میں بھی عوام نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔

میانمار کے فوجی جرنیلوں نے حکومت کا تختہ اُلٹتے ہوئے علی الصبح کارروائی کرتے ہوئے 75سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

انہوں نے ایک سال کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے نئے الیکشن کرانے کا وعدہ کیا تھا البتہ اس کے لیے کسی وقت کا اعلان نہیں کیا گیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور مسیحی روحانی پیشور پوپ فرانسس نے حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے میانمار کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوج کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے کوششیں کریں۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

میانمار کے ایک انجینیئر کاوے زن تن نے ینگون میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہی خود محسوس کررہے ہیں جس کے سائے تلکے ہم 1990 کی دہائی میں پلے بڑھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری حکومت میں یہ خوف ختم ہو گیا تھا لیکن اب اسی خوف نے دوبارہ جگہ لے لی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کے لیے اس فوجی حکومت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔