پاکستان

سپریم کورٹ: اسٹیل ملز کے معاملات مل بیٹھ کر حل کرنے کی ہدایت، نجکاری سے متعلق رپورٹ طلب

تمام صنعتیں بیٹھ گئیں ہیں، تماشا لگایا ہوا ہے، کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہا ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس
|

سپریم کورٹ نے اسٹیل ملز کے معاملات مل بیٹھ کرحل کرنے اور ملازمین کو بقایا جات کی ادائیگی کی ہدایت کرتے ہوئے سینئر وکیل رشید اے رضوی کو معاملے میں ثالث مقرر کردیا۔

ساتھ ہی عدالت نے نجکاری کمیشن اور صنعت و پیداوار کے سیکریٹریز سے 2 ہفتے میں نجکاری سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان اسٹیل ملز سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر نجکاری میاں محمد سومرو، سیکریٹری نجکاری کمیشن حسن ناصر جامی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری نجکاری سے کہا کہ اسٹیل مل پر روزانہ کا خرچ بلاوجہ ہورہا ہے، کیوں نہ اسٹیل مل کا روز کا خرچ آپ سے ریکور (وصول) کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’سیکریٹری صاحب‘ آپ کی ناکامی ہے جو اسٹیل مل پر خرچ ہورہا ہے، آپ کو اس پیسے کے جانے کا کوئی درد نہیں؟ کسی قابل آدمی کو آنے دیں اور آپ گھر جائیں۔

سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ اسٹیل ملز افسران سے پیسے ریکور کیے جائیں، ایک ہی لیٹر پر سب افسران کو فارغ کیا جائے، اسٹیل مل میں 40 تو کیا 5 افسر بھی نہیں رہنے دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں ہیں، تماشا لگایا ہوا ہے، پی آئی اے، ہیوی مکینکل کمپلیکس، شپ یارڈ بند پڑے ہیں، کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہا، سیکریٹری صعنت و پیداوار کو کچھ بھی معلوم نہیں۔

مزید پڑھیں: اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے انہیں نکالیں، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹری صنعت و پیداوار جو کل تک جانتے تھے آج وہ بھی بھول گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے بحری جہاز چین میں بن رہے ہیں، شپ یارڈ بند پڑا ہے۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ نجی اسٹیل مل منافع میں ہے تو سرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل کو چلائیں۔

عدالتی ریمارکس پر وزیر نجکاری میاں محمد سومرو نے کہا کہ شپ یارڈ کے لیے پیسے چاہئیں جو نہیں ہیں، ساتھ ہی اسد عمر نے اسی بات پر کہا کہ گوادر میں نیا شپ یارڈ بن رہا ہے، کراچی شپ یارڈ میں توسیع ہورہی ہے اور بند نہیں کیا گیا۔

اسٹیل ملز سے متعلق میاں محمد سومرو نے بتایا کہ نجکاری پر کافی پیشرفت ہو چکی ہے مسئلہ پیسوں کا ہے، کوئی بھی ساڑھے 3 سو ارب کے واجبات ادا کرنے کو تیار نہیں۔

وزیر نجکاری کا کہنا تھا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل کی نجکاری ماضی میں بھی کالعدم ہو چکی ہے۔

جس پر محمد میاں سومرو کا کہنا تھا کہ کیا ہم اسٹیل مل کی نجکاری نہ کریں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کی نجکاری نہ کریں لیکن عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھیں۔

عدالتی ریمارکس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین (10 کروڑ) ڈالر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہ ہو پھر کوئی غیر ملکی ثالثی ٹربیونل جائے اور جرمانہ ہو جائے۔

اس پر میاں محمد سومرو نے کہا کہ واجبات ادا کرکے اسٹیل مل کو پرکشش بنائیں گے، ستمبر یا اکتوبر میں اسٹیل مل کی بولی لگنے کا امکان ہے۔

بعدازاں عدالت نے کہا کہ اسٹیل مل کے حوالے سے جو منصوبہ ہے وہ تحریری طور پر پیش کریں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اسد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی ٹیم کیا کر رہی ہے، جس پر اسد عمر نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ بلایا کیوں گیا ہے؟ پلائنگ کمیشن کا اسٹیل مل کی نجکاری سے کوئی تعلق نہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ 2018 میں اسٹیل مل منافع میں تھی تاہم ہم 14 ماہ پہلے اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کر چکے ہیں، سی پیک کے تحت چینی کمپنی کو حوالے کرنے کا آپشن تھا، نجکاری کمیشن نے اب اپنا کام کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے آج اسٹیل مل تباہ ہوئی‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ بنیادی طور پر اسٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا، اس کی ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔

اس موقع پر اسد عمر نے عدالت میں کہا کہ کابینہ اجلاس جارہی ہے عدالت اجازت دے، جس کے بعد وہ اور میاں محمد سومرو عدالت کی اجازت کے بعد روانہ ہوگئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ملازمین سے متعلق کہا کہ ان کی اصل تنظیم سی بی اے ہوتی ہے، اس کے سوا دیگر تنظیموں کی حیثیت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ صرف سی بی اے سے مذکرات کی پابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں، جس پر وکیل اسٹیل مل ملازمین نے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو ذمہ دار انتظامیہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اسٹیل ملز کے معاملات مل بیٹھ کر حل کرنے اور ملازمین کو بقایا جات کی ادائیگی کی ہدایت کرتے ہوئے سینئر وکیل رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کردیا۔

ساتھ ہی عدالت نے نجکاری کمیشن اور صنعت و پیداوار کے سیکریٹریز سے 2 ہفتے میں نجکاری سے متعلق رپورٹ طلب کرلی اور کیس کی سماعت کو 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

نادیہ خان نے شادی کے لیے کون سی دو شرائط رکھی تھیں؟

پی ٹی آئی نے اپنے ملازمین کو عطیات وصول کرنے کی اجازت دی، دستاویز میں انکشاف

پاک-ترک مشترکہ فوجی مشق اتاترک الیون کا آغاز