پاکستان

اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس تک رسائی کی درخواست مسترد کردی

پی ٹی آئی کی دستاویزات اس لیے خفیہ رکھی گئیں کہ حکمران جماعت نے انہیں درخواست گزار کو فراہم کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا، کمیٹی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فارن فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی میں پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب اسکروٹنی کمیٹی نے ان کی جانب سے پی ٹی آئی کی دستاویزات بشمول ایک درجن سے زائد 'غیر ڈیکلیئر' بینک اکاؤنٹس تک رسائی کی استدعا مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے حالیہ حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پی ٹی آئی کی دستاویزات اس لیے خفیہ رکھی گئیں کہ حکمران جماعت نے انہیں درخواست گزار کو فراہم کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور نے وزیراعظم کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی کی رازداری ختم کرنے کی پیشکش کو 'غلط سمجھنا' قرار دیا تھا کیوں کہ ان کی پیشکش کا مطلب پی ٹی آئی کی دستاویزات کی رازداری کو ختم کرنا نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں:فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت نہیں ہو سکتی، الیکشن کمیشن

درخواست گزار کے وکیل سید احمد حسن شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کریں گے کیوں کہ شفافیت، قانون اور الیکشن کمیشن کے احکامات پی ٹی آئی کی دستاویزات تک مکمل رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بعدازاں اسکروٹنی کمیٹی کا اجلاس 15 فروری تک کے لیے ملتوی ہوگیا۔

کارروائی کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے ایک نیوز رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری خزانہ نے اعتراف کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی جماعت کے 4 ملازمین کو پاکستان کے اندر اور باہر اور یو اے ای سے موصول ہونے والے فنڈز اکھٹے کرنے کے لیے ان کے ذاتی اکاؤنٹس استعمال کرنے کا مجاز بنایا تھا۔

انہوں نے کہا وہ بارہا اصل درخواست کا حوالہ دے چکے ہیں جس میں پی ٹی آئی ملازمین کے فرنٹ اکاؤنٹس کا ذکر ہے جنہیں مبینہ طور پر غیر قانونی رقم بالخصوص مشرق وسطیٰ سے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے نقدی کو چیکس کے ذریعے منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس میں ہمیں پھنسانے کی کوشش کرنے والے خود پھنس گئے ہیں، شبلی فراز

اسکروٹنی کمیٹی کو درخواست پیش کرتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ پی ٹی آئی کے ان چاروں ملازمین کے اکاؤنٹس تک مکمل رسائی کے لیے اسٹیٹ بینک پاکستان کو خط بھیجے تا کہ غیر قانونی فنڈز اکھٹے کرنے کے حجم اور وسعت کا اندازہ لگایا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مؤکل اسکروٹنی کمیٹی سے پی ٹی آئی ملازمین کے نجی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کی بار بار درخواستیں کر چکے ہیں جنہیں فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر 'فرنٹ' اکاؤنٹس کے طور پر استعمال کیا گیا ۔

تاہم کافی ثبوت فراہم کرنے کے باوجود اسکروٹنی کمیٹی نے اب تک ان اکاؤنٹس کی چھان بین کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔

پی ٹی آئی کو درخواست گزار کی جانب سے پارٹی کے 4 ملازمین کئی ذاتی بینک اکاؤنٹس سامنے لانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو خط لکھنے اور مذکورہ نیوز رپورٹ پر جواب جمع کروانے کی ہدایت کی گئی۔

پی ٹی آئی کے فنڈز کی اسکروٹنی کے لیے کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز ہوگا۔

فارن فنڈنگ کی بنیاد مسلم لیگ (ن) نے رکھی، فرخ حبیب

دوسری جانب اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور پارلیمانی سیکرٹری ریلوے فرخ حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) فارن فنڈنگ کی بانی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن سے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی براہ راست سماعت کی درخواست

فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے چالیس ہزار ڈونرز کا مکمل ریکارڈ الیکشن کمیشن کو پیش کیا ہے، ہم نے سالمیت پاکستان کے خلاف کسی غیر ملکی سے ایک روپیہ نہیں لیا، ہماری تمام فارن فنڈنگ بینکنگ چینل کے ذریعے آئی۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ منی لانڈرنگ، حوالہ، ہنڈی کی بنیاد رکھنے والے نواز شریف ہیں، انہوں نے اپنی لوٹ مار سے اربوں روپے مریم صفدر کو گفٹ کیے جس سے انہوں نے جائیداد خریدیں، ان کے جھوٹ بے نقاب ہو گئے ہیں۔

اسکروٹنی کمیٹی میں شفافیت

دوسری جانب اکبر ایس بابر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کی دستاویزات کو خفیہ رکھنے کے فیصلے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں اور اسے الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دستاویزات کو خفیہ رکھنے سے صرف اسکروٹنی کمیٹی کی ساکھ اور شفافیت مشکوک ہوگی۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے فند اکٹھے کرنے کے لیے ملازمین کے اکاؤنٹس استعمال کرنے کا اعتراف جرم، اس کے میگا بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کے بارے میں ان کے مؤقف کی توثیق کرتا ہے۔

فارن فنڈنگ کیس

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التوا ہے جو اس پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا۔

کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر ملکی فنڈز میں سے تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے سے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔

ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔

بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔

فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔

علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی تھی اور اگست میں الیکشن کمیشن میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جسے ای سی پی نے مسترد کرکے تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

پابندیاں برقرار رہیں تو جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کرسکتے ہیں، ایران

نیا کورونا وائرس انسانی دماغ میں بھی داخل ہوسکتا ہے، تحقیق

مقبوضہ کشمیر میں افضل گورو کی پھانسی کی برسی کے موقع پر شٹ ڈاؤن