پاکستان

صوبوں میں پی اے ایس افسران کی تعیناتیوں کو قانونی مشکلات کا سامنا

پشاور ہائیکورٹ اپریل کے پہلے ہفتے میں 12 مارچ کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کے لیے درخواست پر سماعت کرے گا، رپورٹ

اسلام آباد: صوبائی بیوروکریسی نے وفاقی بیوروکریٹس کو صوبائی نشستوں پر تعیناتی میں توسیع کے نوٹیفکیشن کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے چاروں صوبوں میں انتظامی عہدوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 12 مارچ کو سول سروسز آف پاکستان (کمپوزیشن اینڈ کیڈر) رولز 1954 میں ترمیم کی تھی جس میں صوبائی بیوروکریسی کی تشکیل کو تبدیل کیا گیا تھا اور پاکستان انتظامی خدمات (پی اے ایس) کے عہدوں کی تعداد 299 سے بڑھا کر ایک ہزار 121 کردی تھی۔

امکان ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اپریل کے پہلے ہفتے میں 12 مارچ کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کے لیے درخواست پر سماعت کرے گا جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ بھی اپریل کے وسط میں یہی معاملہ اٹھائے گی۔

مزید پڑھیں: سول سروسز اصلاحات نئی بوتل میں پرانی شراب کی طرح ہیں، مبصرین

دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ نے گزشتہ ماہ 'اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ وہ آئین اور میرٹ کے مطابق صوبائی افسران کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے معاملہ ڈاکٹر عشرت حسین کے پاس بھیجے' اور اس نے دو ماہ میں رپورٹ طلب کی تھی۔

آل پاکستان صوبائی سول سروسز ایسوسی ایشن (اے پی پی سی ایس اے) کے اعداد وشمار کے مطابق چاروں صوبوں میں ان کی مجموعی منظور شدہ آسامیاں 5 ہزار 513، پنجاب میں 2 ہزار 38، سندھ میں ایک ہزار 757 خیبر پختونخوا میں ایک ہزار 346 اور بلوچستان میں 372 ہے۔

اے پی پی سی ایس اے نے دعوٰی کیا کہ پی اے ایس کے منظور شدہ عہدوں کی تعداد 147 تھی تاہم کیڈر ایک ہزار 947 عہدے ہیں۔

اے پی پی سی ایس اے نے 12 مارچ کو قواعد میں تبدیلی کے بارے میں نوٹیفکیشن کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'اس سے براہ راست وفاقی عہدیداروں کے لیے مختص عہدوں کی تعداد میں چار گنا اضافے کے نتیجے میں صوبائی سرکاری ملازمین کی ترقی کے امکانات میں زبردست کمی آئی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سول سروس اصلاحات، افسران کی ترقی کا کڑا معیار مقرر، 'جبری' ریٹائرمنٹ کی راہ ہموار

صوبائی سرکاری ملازمین کے لیے اپنے ہی صوبے کی بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے جو ایک وفاقی نظام کے لیے ستم ظریفی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ 'اس نظام کو بنیادی طور پر تبدیل آئینی ترمیم یا پارلیمنٹ کے ایکٹ یا قواعد کے بغیر کیا گیا ہے، ایگزیکٹو آرڈر آئین اور پاکستان کے قوانین کے منافی ہے اس لیے اسے معطل کیا جانا چاہیے'۔

اے پی پی سی ایس اے کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 240 (اے) کے تحت فیڈریشن اور آل پاکستان سروسز کے امور کے سلسلے میں عہدوں پر تقرر کرتی ہے جبکہ اسی آرٹیکل کی شق (بی) صوبائی اسمبلیوں کو عہدے بڑھانے یا اپنے صوبوں کے انتظامی عہدوں کی تعداد میں کمی لانے کا اختیار دیتی ہے۔

اے پی پی سی ایس اے کے ترجمان طارق ملک نے کہا کہ 12 مارچ کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی ایسی ہی درخواستیں سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہیں۔

'ای سی پی اراکین مستعفی نہ ہوئے تو توہینِ عدالت کی کارروائی کیلئے رجوع کریں گے'

اشیائے خورو نوش کے درآمدی بل میں 50 فیصد تک اضافہ

عدالت عظمیٰ نے کوئٹہ ڈی ایچ اے سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا