پاکستان

اے این پی کا پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنے کا اعلان

ہم سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹرز کے خلاف اور شفاف انتخابات کے لیے میدان میں تھے، آج بھی ہیں اور میدان میں ہی رہیں گے، امیر حیدر ہوتی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ آج پارٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا اور پارٹی کے مرکزی عہدیداروں اور اہم رہنماؤں نے شرکت کی اور ایجنڈا اے این پی کو بھیجا گیا جو شوکاز نوٹس تھا۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی، اے این پی کو نوٹس قانونی چارہ جوئی نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی

رہنما اے این پی نے کہا کہ پوری قوم کو یاد دلانا چاہوں گا کہ پی ڈی ایم کیوں بنی تھی، بنیادی طور پر 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی جہاں جوائنٹ ڈیکلیئریشن جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد چارٹر کے بنیادی اصول دوسرا کامن ایجنڈا تھا جس پر پی ڈی ایم قائم ہوئی تھی اور اے این پی آج بھی اس چارٹر کو مانتی ہے اور آئندہ بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر اپنا سیاسی سفر جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ایک کامیاب تحریک چلی جس کے نتیجے میں سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹرز پر دباؤ آیا، جس پر میں پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں اور پاکستان کے عوام کو کریڈٹ دوں گا۔

'اے این پی استعفوں کے حق میں تھی'

انہوں نے کہا کہ اس تحریک کے آخری مرحلے میں ہم نے لانگ مارچ کرنا تھا اور اس کے لیے مارچ کی 30 سے 31 مارچ کی تاریخ دی تھی، استعفوں کی ٹائمنگ کی وجہ سے لانگ مارچ کو مؤخر کرنا پڑا اور استعفوں پر اے این پی کا مؤقف اس وقت بڑا واضح تھا کہ ہم مستعفی ہوں گے، اگر تمام اسمبلی سے ایک ساتھ مستعفی نہیں ہو سکتے ہیں تو پہلے قومی اسمبلی اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دیں گے۔

امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ ہمارا مؤقف تھا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ میں وہ دم نہیں ہوگا اور یہ بھی کہا تھا کہ استعفوں کا اثر بھی تب ہوگا جب متفقہ ہوں گے اگر متفقہ نہیں ہوتے تو ہمیں انتظار کرنا چاہیے اور میری تجویز تھی جب تک استعفوں پر اتفاق تک لانگ مارچ مؤخر کیا جائے، جس پر دیگر قائدین نے بھی اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے آخری سربراہی اجلاس میں ماحول ایسا بنا کہ تلخیاں اور دوریاں پیدا ہوئیں، فی الفور ضرورت تھی کہ ان تلخیوں اور دوریوں کو ختم کیا جاتا اور اسی دوران سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی ڈی ایم کے دو امیدوار سامنے آئے، ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسرا پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'باپ' سے ووٹ لینے کا معاملہ: پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی،اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کردیے

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پر پیپلز پارٹی کو تحفظات تھے، مناسب یہ ہوتا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں اس معاملے کو رکھا جاتا اور ان اعتراضات کو دور کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا تو اے این پی نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔

اپوزیشن لیڈر کو ووٹ دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیوں دیا اس کے بارے میں اجلاس میں پوچھا جاتا تو ہم اس کا جواب دیتے اور تمام پارٹیوں کو موقع دیا جاتا بجائے اس کے ہمیں شوکاز نوٹس بھیج دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتایا جائے کہ پی ڈی ایم کب سے ایک واحد سیاسی جماعت بن گئی ہے، پی ڈی ایم کا کوئی آئین ہے، شوکاز نوٹس اور جواب طلبی سیاسی جماعت کے اندر پارٹی عہدیدار سے ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اے این پی، پی ڈی ایم کا حصہ ہے لیکن ہم نہ مسلم لیگ میں ضم یا شامل ہوئے اور نہ ہی جمعیت میں ضم یا شامل ہوئے اور نہ ہی پی ڈی ایم کی کسی اور جماعت میں شامل ہوئی ہے، ہم ایک الگ پارٹی ہے اور اپنی شناخت ہے، اے این پی کو شوکاز نوٹس دینے کا اختیار اسفندیار ولی کو ہے۔

اے این پی کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ اگر جواب طلبی کرنی تھی اور وضاحت چاہیے تھی تو ہم دینے کو تیار تھے، اگر اس پر وضاحت چاہیے تھی تو پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملا کر سینیٹ کے بلامقابلہ انتخابات کروائے گئے اس پر وضاحت نہیں بنتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح خیبر پختونخوا میں صرف 2 جنرل سیٹ جیت سکتے تھے لیکن یہاں تیسرے امیدوار کو لا کر ٹینکوکریٹ اور خاتون کی سیٹ ہمارے ہاتھ سے گئی، آیا اس پر وضاحت نہیں بنتی، آج لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے خلاف جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہوگیا ہے، اس پر وضاحت نہیں ہونی چاہیے، ظاہر ہے اس پر بھی وضاحت ہونی چاہیے تھی لیکن اس پر شوکاز نوٹس نہ مسلم لیگ (ن) اور نہ مولانا کو دیا جا سکتا اور اگر کوئی دے گا تو کس حیثیت میں دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: (ن) لیگ سمیت اپوزیشن کی 5 جماعتوں کا سینیٹ میں الگ بلاک بنانے کا فیصلہ

امیرحیدر ہوتی نے کہا کہ مولانا اور شاہد خاقان عباسی ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ہمیں مولانا سے توقع تھی کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ اور شاہد خاقان عباسی پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے قدم اٹھائیں گے، ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حیثیت سے قدم اٹھائیں گے۔

'واضح ہے چند جماعتیں اے این پی اور پی پی پی کو رکاوٹ سمجھتی ہیں'

انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ یہ شوکاز نوٹس کیوں دیا ہے، اگر ان کو وضاحت چاہیے تھی تو شاہد خاقان عباسی، نورانی اور عبدالغفور حیدری میرے گھر آئے تھے، اس کے حوالے سے جو وضاحت چاہیے تھی وہ ان کو مل چکی ہے۔

اے این پی کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ اس وضاحت کے باوجود انہوں نے شوکاز نوٹس دیا ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ وہ سیاسی طور پر اے این پی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، واضح ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر دو یا تین جماعتیں مل کر پی ڈی ایم کے فیصلے کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں یہ واضح ہے کہ وہ جماعتیں اے این پی اور پیپلز پارٹی کو رکاؤٹ سمجھتی ہیں اور ہمیں دیوار سے لگانا چاہتی ہیں، سربراہ کا کردار یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس طریقے سے حملہ آور ہو، اتحادی جماعتوں کے درمیان جو اختلاف رائے ہے اس کو دور کیا جائے، کیا ضرورت تھی اس شوکاز نوٹس کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو طریقہ اپنایا گیا وہ بڑا واضح ہے کہ پی ڈی ایم کو کچھ مخصوص جماعتیں اپنے مفاد اور اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری نظر میں ایجنڈا وہی ہے جو 20 ستمبر کو تھا، ذاتی ایجنڈے کی گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی ذاتی ایجنڈا لے کر چلے گا تو کم از کم اے این پی ایسے سفر پر ساتھ نہیں دے سکتی۔

'اے این پی سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹرز کے خلاف میدان میں رہے گی'

انہوں نے کہا کہ ہم سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹر کے خلاف اور شفاف انتخابات کے لیے میدان میں تھے، آج بھی ہیں اور میدان میں رہیں گے، کوئی برابری کی بنیاد پر، سیاسی انداز میں بات کرے گا تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں لیکن کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کو وہ حیثیت دیں جیسے کہ وہ ہماری پارٹی کے سربراہ ہیں تو وہ ممکن نہیں ہوگا۔

امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ ہم طویل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن اغراض و مقاصد کے لیے پی ڈی ایم قائم کیا گیا تھا آج ہمیں نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم کو شاید اس سے دور لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، پی ڈی ایم کو اس چارٹر، ڈیکلیئریشن اور اصولوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ کچھ ذاتی سیاسی ایجنڈے کے لیے پی ڈی ایم کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے ذاتی ایجنڈے کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں، کیونکہ جنہوں نے شوکاز نوٹس دیا ہے انہوں نے خود ہی پی ڈی ایم کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے اس لیے میں پی ڈی ایم کے نائب صدر، میاں افتخار حسین ترجمان اور زاہد خان ڈپٹی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔

اے این پی کے نائب صدر نے کہا کہ اے این پی مخصوص سیاسی ایجنڈا اور کچھ مخصوص سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کو جس طرح ہائی جیک کر رہی ہے بلکہ ہائی جیک کر چکی ہیں، اے این پی اس عمل سے دستبردار ہو رہی ہے۔

نیب کی ضمانت منسوخی کی درخواست، مریم نواز کی جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا

فربہ خواتین کے لیے لباس تیار کرنے والا ملک کا پہلا فیشن برانڈ

خون سے لکھی صبا قمر کی ’اک ادھوری پیار کی کہانی‘