پاکستان

نیب کے خوف سے بیوروکریسی فیصلے کرنے سے گریزاں ہے، تابش گوہر

حکومت چاہتی ہے کہ تمام زیر التوا رقوم جلد سے جلد ادا کر دی جائیں اور قانونی مسائل حل ہوں، معاون خصوصی برائے توانائی

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے خوف سے بیوروکریسی فیصلے کرنے سے گریزاں ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'لائیو ود عادل شاہ زیب' میں گفتگو کرتے ہوئے آزاد بجلی پیدا کرنے والے ادارے (آئی پی پیز) کو ادائیگیوں میں تاخیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ نیب کے پاس ہے اور 40 آئی پی پیز کو تقریباً 400 ارب روپے سے زیادہ کی ادائیگی التوا کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک سے متعلق معاہدہ سعودی سرمایہ کار، معاون خصوصی کے درمیان تنازع کا شکار

انہوں نے کہا جب واجب الادا رقم کی ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہو گا تب ہی کے-الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کرنے سے متعلق معاملات آگے بڑھیں گے۔

تابش گوہر نے کہا کہ کے-الیکٹرک کی ادائیگیوں اور دیگر قانونی پیچیدگیوں کے حوالے سے تاثر غلط تھا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ تمام زیر التوا رقوم جلد سے جلد ادا کر دی جائے اور قانونی مسائل حل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ شنگھائی پاور سمیت کے-الیکٹرک کا کوئی بھی خریدار ہو تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، دو کروڑ صارفین کی خدمت کرنے والا یہ ادارہ گزشتہ 4سال سے تذبذب کا شکار ہے اور اس کی باگ ڈور ایسے ادارے کو منتقل ہونی چاہیے جو مزید سرمایہ کاری کر سکے اس لیے حکومت اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تمام تر کوششیں کررہی ہے۔

تابش گوہر نے کہا کہ ریکوڈک یا ماضی میں ہارے گئے کیسوں کے ڈر سے ہم اپنے اصولی مؤقف سے دستبردار نہیں ہو سکتے، یہاں اربوں روپے کی بات ہو رہی ہے جو قومی خزانے سے ہی جانے ہیں، تو اگر ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کے مطابق ہم نے کوئی مؤقف اختیار کیا ہوا ہے تو بین الاقوامی عدالت ہو یا مقامی عدالت، ہم اپنے مؤقف میں سرخرو ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ مجھ پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ میرے کے-الیکٹرک میں کوئی شیئرز نہیں ہیں، میں چھ سال پہلے کے-الیکٹرک سے مستعفی ہو گیا تھا، میں محض معاون خصوصی ہوں اور فیصلے وفاقی کابینہ اور وزرا کرتے ہیں اور میں صرف مشورہ دیتا ہوں۔

کسی کا میڈیا ٹرائل نہیں کیا جا رہا، شہزاد اکبر

دوسری جانب مشیر داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے پروگرام میں گفگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنوں سے سوال کرنا مشکل کام ہے لیکن اس وجہ سے کام تو نہیں چھوڑا جا سکتا ہے، شفاف طریقے سے سب سے سوال کیے جا رہے ہیں لیکن کسی کا میڈیا ٹرائل نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ اپنوں سے سوال کرنا مشکل کام ہے لیکن اس وجہ سے یہ کام چھوڑا نہیں جا سکتا اور چیزوں کو اس کے تسلسل میں دیکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: میں تو دوست تھا، دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا جارہا ہے، جہانگیر ترین

انہوں نے معاملات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آج ایف آئی اے جو کارروائی کررہی ہے، اس سلسلے کا آغاز مئی 2020 سے ہوا جب شوگر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئی اور اس رپورٹ کے نتیجے میں تمام محکموں کو ہدایات جاری کی گئیں اور جے ڈی ڈبلیو بھی اس کا ایک جزو تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات کو مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن حکومت کے حق میں فیصلہ آیا کہ تمام ادارے اپنے قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف آئی اے نے 2019 میں جے ڈی ڈبلیو اور العربیہ شوگر ملز نے اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا کہ یہ معاملہ ایف آئی اے کے دائرہ کار میں نہیں آتا لیکن عدالت نے چار ماہ مقدمے چلنے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ ایف آئی اے کا دائرہ اختیار ہے اور وہ کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کارروائی میں تسلسل سے چیزیں چل رہی ہیں اور یہ محض ایک گروپ کی بات نہیں ہے، اس وقت شوگر سے متعلقہ 14 سے 15 ایف آئی آر رجسٹر ہیں جس میں تقریباً 18 شوگر ملز یا گروپس کے معاملات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر اسکینڈل کیس میں جہانگیر ترین، حمزہ شہباز کی گرفتاری کا امکان

انہوں نے کہا کہ کوئی خبر اگر میڈیا پر زیادہ چلتی ہے تو جو فرد اس خبر میں موجود ہے اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن کسی کا میڈیا ٹرائل نہیں کیا جا رہا، ہم ایماندارانہ اور شفاف طریقے سے سب سے سوال کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے جب چالان داخل کرے گی تو پتہ چلے گا کہ جرم سرزد ہوا ہے یا نہیں ہوا، ایف آئی اے افسران نے اپنا ذہن بنانا ہے جس کے لیے ثبوت اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

میڈیا ٹرائل کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 50 نیوز چینل کھولے ہوئے ہیں تو میڈیا ٹرائل کا الزام تو جہانگیر ترین کو 50 نیوز چینل پر عائد کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مشہور شخصیت ہیں تو جب ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ ایک خبر بن جاتی ہے۔

مشیر احتساب و داخلہ نے واضح کیا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ اگر اعظم خان سمیت کسی شخص سے ان کے تعلقات خراب ہیں، تو اس کی وجہ سے مقدمات بنائے گئے ہیں، جن معاملات پر سوال اٹھایا گیا ہے وہ آج سے پانچ سات سال پہلے کے ہیں، کچھ 2013 کے ہیں، کچھ 2015 کے ہیں، تو اس وقت نہ اعظم خان تھے، نہ میں تھا اور نہ ہی کوئی اور شخص تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو تفتیش جانبدار ہونے پر شک ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور انہوں نے ایسا کیا بھی ہے لیکن عدالت نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، اگر کچھ ایسا معاملہ ہوتا تو انہیں عدالتوں سے ریلیف مل جاتا۔

مزید پڑھیں: جہانگیر ترین، زرداری سے ملاقات کریں گے، پی پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں، شہلا رضا

جب ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کے خلاف کی جا رہی اس کارروائی کا علم ہے تو انہوں نے کہا کہ تمام ادارے قانون اور اپنی حدود کے مطابق کام کررہے ہیں، وزیر اعظم کی براہ راست مداخلت نہیں ہو سکتی لیکن یہ تمام کارروائیاں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد کی گئیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ماضی میں ہمارے نظام میں خرابی یہی تھی کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ ٹیلی فون اٹھا کر ہائی کورٹ کے ججوں کو کہتا تھا کہ اس کو سزا دے دیں اور اس کو چھوڑ دیں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق کارروائی کرنی ہے پھر چاہے وہ حکومتی شخص کے خلاف ہو یا اپوزیشن کی پارٹی کا ہو یا عام آدمی ہو، ہم اس وقت تک یکساں احتساب کی بات کر ہی نہیں سکتے جب تک ہم اپنوں سے سوال نہ کریں۔

جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کی صورت میں پنجاب اور مرکز میں حکومت کو لاحق خطرات کے حوالے سے سوال پر مشیر داخلہ نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ مجھے یا ایف آئی اے کو تو نہیں کرنا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چلانے کے لیے کس کے اوپر کیس بنائے گی اور کس کے اوپر نہیں بنائے گی، یہ بہت غیرمنطقی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی انتہائی معیوب ہے کہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ ترین صاحب کی وجہ سے ملا ہے کیونکہ جہانگیر ترین نظام کا حصہ نہیں تھے، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نہیں لائی تھی بلکہ انہوں نے خود یہ ووٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی اسکینڈل: ایف آئی اے کے نوٹسز میں جرم نہیں بتایا گیا، جہانگیر ترین کا جواب

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ اپنی شخصیت اور اراکین کے اعتماد کی وجہ سے ملا ہے۔

شہزاد نے پھر واضح کیا کہ ان کا جہانگیر ترین سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ جہانگیر ترین کی بہت عزت کرتے ہیں، وہ کامیاب کاروباری اور زرعی شخصیت ہیں جبکہ 2004 سے وہ مختلف حکومتوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ثالثی کے خوف کی وجہ سے وہ اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ بالآخر یہ ایک عام آدمی کا مسئلہ ہے۔

جنوبی افریقہ کو تیسرے ون ڈے میں شکست، سیریز پاکستان کے نام

دنیا کی امیر ترین خاتون کی دولت امیر ترین مرد کے مقابلے میں 100 ارب ڈالر کم

آپ کی وہ عام عادت جو موٹاپے اور توند کا باعث بن جائے