پاکستان

بھارت سے بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں، کشمیر پر مؤقف تبدیل نہیں ہوا، ترجمان دفتر خارجہ

مذاکرات سے بھاگ نہیں رہے، کشمیر سمیت تمام مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں، زاہد حفیظ چوہدری کی ہفتہ وار بریفنگ
|

اسلام آباد: دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور بامعنی مذاکرات کا خواہاں ہے لیکن مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں ہمیشہ تاخیر کی جاتی ہے اور پاکستان کا مؤقف ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی جلد از جلد ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'مذاکرات سے متعلق بھارتی پیغام' پر پاکستان نے شرائط پیش کردیں

ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے تنازعات کا حل بات چیت کے ذریعے ضروری ہے، ہم سمجھتے ہیں عالمی برادری دونوں ممالک کے مابین موجود تنازع کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کرے اور اس سلسلے میں امریکا سمیت کسی بھی ملک کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت سے معاملات حل ہوں، ہم بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور مذاکرات سے بھاگ نہیں رہے، پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا۔

زاہد حفیظ چوہدری نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا اور ہم بھارت سے کشمیر سمیت تمام مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ممالک کے درمیان جنگوں کے دوران بھی بات چیت ہوتی ہے، بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اور ہم بھارت سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بات چیت بامعنی اور بنیادی تنازعات پر ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ٹیم آبی تنازع پر مذاکرات کیلئے بھارت روانہ

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان دیکھ رہا ہے کہ آیا بھارت سے بات چیت ہونی چاہیے یا نہیں، امن اور مسائل کے حل کے لیے بات چیت ضروری ہے اور وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے تو پاکستان 2 قدم بڑھائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ موزوں حالات کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019 کے اقدامات واپس لینا ہوں گے اور بھارت سے جب بھی بات ہو گی تو اس میں بنیادی نقطہ مقبوضہ جموں کشمیر ہی ہو گا کیونکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں ہائی کمشنرز کی تعیناتیوں کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ہائی کمشنرز کی واپسی فی الحال خارج از امکان ہے۔

انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بارے میں اطلاعات مکمل معلومات پر مبنی نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان، بھارت پر براہ راست مذاکرات کیلئے زور

ان کا کہنا تھا کہ 2017 سے سارک کانفرنس نہیں ہو سکی، پاکستان دوسال سے سارک کانفرس کے لیے کوشاں ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس کا انعقاد ممکن نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید بہتر کام کر رہے ہیں لہٰذا انہیں بدلنے کے حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

ایک سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے دورہ افغانستان میں افغان اسپیکر کے ساتھ معاملات طے شدہ تھے، ہمیں یہی بتایا گیا کہ کابل ائیرپورٹ سیکیورٹی وجوہات پر بند تھا اور سیکیورٹی خدشات کے باعث پاکستانی پارلیمانی وفد کا طیارہ لینڈ نہ کر سکا۔

زاہد حفیظ چوہدری نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی ویزوں پر پابندی کے حوالے سے ان سے رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ جلد یہ معاملہ مثبت انداز میں حل ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مذاکرات کی بحالی کیلئے بھارت سے سازگار ماحول تیار کرنے کا مطالبہ

ترجمان دفتر خارجہ نے قابض بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری غیرقانونی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ گزشتہ ہفتے بھی جاری رہا اور پلوامہ اور شوپیاں میں مزید 10 کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔

گوروں نے کچھ غلطیوں کے ساتھ یہاں کی ترقی کے لیے جو بن پڑا وہ کیا

فواد عالم اور فاریہ حسن کی ’خودکش محبت‘

موجودہ حکومت کا وہ کام جو گزشتہ 30 سال سے کوئی حکومت نہ کرسکی