نقطہ نظر

رمضان میں خواتین کو سُپر وومن سمجھنا چھوڑ دیں

گھر کے دیگر مکین یہ سمجھنے اور سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ کچن اور ہمارے رویوں کا سارا بوجھ اٹھائے یہ خاتون بھی روزے سے ہے۔

پاکستان دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں خاندانی نظام بہت زیادہ اہم اور مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں معاشرتی روابط، تقریبات کا انعقاد، چھٹیوں پر رشتہ داروں کے ہاں جانا، ہلا گُلا، ملنا ملانا، دعوتیں کرنا، تہذیب و ثقافت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے خطرناک کورونا وبا کی تیسری لہر نے نظامِ زندگی کو عملی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری زندگی کا مزاج بھی یکسر بدل سا گیا ہے۔

اس بار بھی رمضان میں کورونا جیسی عالمی وبا کے خطرے کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن کا دباؤ ملک بھر میں کہیں نرمی اور کہیں سختی کے ساتھ جاری ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے چار دیواری کے اندر پیدا ہونے والا ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی دباؤ کسی سائیکلون کی طرح صدیوں سے قائم خاندانی نظام کو شدید خطرات سے دوچار کرچکا ہے۔

عدم برداشت کے مظاہرے جا بجا دیکھے جاسکتے ہیں اور اب تو حوصلے بھی جواب دینے لگے ہیں۔ رمضان المبارک میں غصے کو کنٹرول کرنا جہاں زیادہ ضروری ہونا چاہیے وہاں اب معمولی سی بات بھی ہاتھا پائی پر پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ ایسے میں اکثریتی گھرانوں میں مرد حضرات، بزرگ اور بچوں کی نازک مزاج طبیعت کو برداشت کرنا صرف خاتونِ خانہ پر ہی فرض سمجھا جاتا ہے تو وہیں سحری سے افطاری تک کے سارے معاملات بھی اکیلی عورت کی ذمہ داری ہوتے ہیں اور ان میں کوتاہی کسی صورت برداشت نہیں کی جاتی۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آنا اور نکتہ چینی کرتے جانا اب ایک معمول سا بنتا جا رہا ہے۔

کچھ ناگوار جملے تو اکثر سننے کو ملتے ہیں جیسے

گھر کے دیگر مکین یہ سمجھنے اور سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ کچن اور ہمارے رویوں کا سارا بوجھ اٹھائے یہ خاتون بھی روزے سے ہے۔ اس کے اعصاب بھی کسی مشینی پُرزے کی طرح سخت اور کٹیلے لفظوں سے رگڑ کھا کر تھک سکتے ہیں۔ پھر جوں جوں اس خطرناک وبا میں گھروں کی قید کا یہ سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے، یکسانیت اور گھٹن اعصاب کو بُری طرح متاثر کرتی جا رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بار خاتون خانہ رمضان المبارک میں بے چینی کا شکار ہے۔ کبھی کبھی معاملات اس حد تک قابو سے باہر ہوجاتے ہیں کہ وہ نہیں جانتی کہ ان رویوں کا مقابلہ کیسے کرے؟ کیونکہ حالتِ روزہ میں اس کی برداشت کا لیول بھی کم ہوجاتا ہے، پس جب رویے دوبدو ہوجائیں تو پھر گھروں میں سنگین صورتحال پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ جس کا سب سے زیادہ منفی اثر بچوں پر پڑتا ہے۔

پاکستانی سماج میں عورتوں پر تشدد پہلے ہی ایک انتہائی دردناک المیہ ہے اور بات بات پر ہونے والی بحث عورتوں، مردوں اور خاص کر بے روزگار لوگوں کو زیادہ خطرے سے دوچار کرسکتی ہے، ایسے میں ضروری نہیں کہ گھر میں پیدا ہونے والے دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت گھر کے ہر فرد میں موجود ہو۔

اگر بالفرض یہ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت موجود بھی ہے تو ہر روز معمولی باتوں پر طویل بحث و مباحثہ اور پھر جھگڑے رشتوں میں موجود تعلق کو دن بدن کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ان حالات میں مرد و زن کو اپنا فکری شعور اجاگر کرنے اور معاملات کو تحمل سے دیکھنے کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے نہ تھی۔

روزمرہ کی بنیاد پر ان مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کو اپنا کردار کیسے ادا کرنا چاہیے اور اس رمضان وہ اپنی طرف سے کیا بہتری لا سکتی ہیں، آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔


خواتین کا کردار



مردوں کا کردار


رمضان المبارک میں اچھے اخلاق اور گفتار کا اثر پورے گھر کو خوشگوار یا ناخوشگوار بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس لیے گھر کے سربراہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غصے کا حق صرف اس کو حاصل نہیں ہے بلکہ یہ غصہ اس گھر کے دوسرے فرد (بیوی) کو بھی آسکتا ہے جس کے نتیجے میں تناؤ کی کیفیت گھر کے ہر فرد کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

چنانچہ ضروری ہے کہ اپنے غصے پر قابو پانا سیکھیے۔ گالی گلوچ، مارپیٹ سے پرہیز کریں، بدکلامی، فحش گوئی سے بچیں، پُرامن ماحول پیدا کرنے میں مل جل کر اپنا حصہ ڈالیں۔

یاد رکھیے! گھر شوہر اور بیوی مل کر بناتے ہیں۔ دوطرفہ تعاون سے ہی مکان مکمل طور پر گھر کی شکل اختیار کرتا ہے سو گھر میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا ذمہ دار کسی ایک فرد کو نامزد کرکے خود پتلی گلی سے نکلنا ٹھیک نہیں ہے۔ کورونا کے پُل صراط پر آنے والا ہر لمحہ آزمائش ہے جسے پوری استقامت سے ایک ساتھ چل کر ہی طے کیا جاسکتا ہے۔

سائرہ فاروق

سائرہ کا تعلق مانسہرہ سے ہے اور وہ تقریباً 5 سال سے سماجی اور نفسیاتی مسائل سے متعلق لکھ رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔