کاروبار

ریگولیٹرز نے منی لانڈرنگ کے خلاف کمر کس لی

ایس بی پی اور ایس ای سی پی نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف ایک مفاہمتی خط (ایل او یو) پر دستخط کردیے۔

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف مشترکہ نگرانی کو سخت کرنے کے لیے جمعرات کے روز ایک مفاہمتی خط (ایل او یو) پر دستخط کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے مالی گروپ کی سطح پر انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام (سی ایف ٹی) کی نگرانی کے حوالے سے تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنی مشترکہ ٹاسک فورس برائے مرکب مالی ادارہ جات (financial conglomerates) کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) میں ترامیم کیں۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر اور ایس ای سی پی کے چیئرمین عامر خان نے ٹی او آرز میں ترامیم کے لیے ایل او یو پر دستخط کیے۔

یہ اقدام پیرس میں قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر آنے میں ناکام ہونے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس نے پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کردی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، جون تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر بدستور موجود

پاکستان میں مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ واچ ڈاگ، پاکستان اور بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر علاقائی ممالک کے مالیاتی نظام کے موازنے کے دوران پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔

25 فروری 2021 کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اپنی ’گرے لسٹ‘ میں رکھنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جون 2021 میں ایک غیر معمولی مکمل اجلاس میں اس ملک کی حیثیت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

واچ ڈاگ نے مشاہدہ کیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے صدر کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اب بھی زیر نگرانی رہے گا'، پاکستان نے بھرپور پیش رفت دکھائی ہے لیکن اسے مزید سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

نگران تنظیم کے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ 'وہ تمام اقدامات دہشت گردوں کی مالی معاونت سے جڑے ہیں اور 27 میں سے 3 پوائنٹس کو مکمل طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے'۔

واضح رہے کہ پاکستان کے پاس جون 2021 میں گرے لسٹ سے باہر آنے کا ایک اور موقع ہے جس کی وجہ سے دونوں ریگولیٹرز، ایس بی پی اور ایس ای سی پی نے اے ایم ایل اور سی ایف ٹی کے خلاف اپنے کردار کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو اب 'ایف اے ٹی ایف' کی بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جاسکتا، حماد اظہر

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مالی شعبے کے ضابطہ کاروں کے درمیان ادارہ جاتی مالی تعاون، مختلف قسم کے مالی اداروں پر مشتمل مالی گروپس کی مؤثر نگرانی کا ایک اہم عنصر ہے۔

اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے مارچ 2009 میں جوائنٹ ٹاسک فورس قائم کی تھی تاکہ مالی شعبے میں مرکب ادارے بننے کے خطرات کو فعال طور پر شناخت اور ان سے نمٹا جاسکے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اے ایم ایل، سی ایف ٹی، سی پی ایف کی نگرانی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جوائنٹ ٹاسک فورس کے ٹی او آرز میں اس شعبے کو زیادہ واضح کیا جائے‘۔

مزید کہا گیا کہ ’ٹی او آرز میں اس بہتری سے ریگولیٹرز کو گروپ کی سطح پر بین الاقوامی معیارات کے مطابق اے ایم ایل، سی ایف ٹی، سی پی ایف کی نگرانی کا عمل انجام دینے اور زیادہ منظم انداز میں تعاون اور معلومات کے تبالے کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔

ریگولیٹرز کے سخت کردار نے پاکستان میں صارفین کے لیے بینکاری کو بری طرح متاثر کیا ہے، نیا اکاؤنٹ کھولنا آسان نہیں ہے جبکہ بینکوں کے خلاف شکایات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ وہ ’اپنے صارف کو جانیں‘ (کے وائے سی) کے بارے میں بے حد محتاط ہیں۔

تمام بینکوں کو دی جانے والی ایک تفصیلی ہدایت میں کہا گیا کہ ’جہاں صارف یا کبھی کبھار صارف کی نمائندگی کسی مجاز ایجنٹ یا نمائندے کے ذریعے کی جائے، ایس بی پی آر ایز (ریگولیٹڈ اداروں یا مالیاتی اداروں) ہر اس شخص کی شناخت کریں گے جو صارف کی طرف سے کام کرے گا، اس شخص کی معتبر اور آزاد دستاویزات، ڈیٹا یا معلومات استعمال کرتے ہوئے تصدیق اور اس شخص کے صارف کی طرف سے کارروائی کرنے کے اختیار کی تصدیق کی جائے گی‘۔

'ملک سے غربت کا خاتمہ بڑی کامیابی ہوگی'

حاملہ خواتین میں کووڈ 19 سے پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق

بائیڈن کا ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تحفظ کیلئے امداد دگنی کرنے کا اعلان