پاکستان

کوئٹہ: پولیس کی مبینہ فائرنگ سے طالب علم جاں بحق

4 اہلکاروں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، 324 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، پولیس
|

کوئٹہ کے سریاب روڑ پر بلوچستان کی ایگل اسکواڈ پولیس کے عہدیداروں کی مبینہ فائرنگ کے نتیجے میں نوجوان طالب علم جاں بحق ہوگیا۔

پولیس کی مبینہ فائرنگ سے 22 سالہ طالب علم فیضان جتک کے جاں بحق ہونے پر کوئٹہ میں احتجاج شروع ہوا اور معاملہ سوشل میڈیا پر آگیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسامہ ستی کا قتل: واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے پانچوں اہلکار برطرف

فیضان جتک کے کزن کی مدعیت میں درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق وہ دونوں کار میں سوار تھے اور جب رات کو تقریباً 10بجے سریاب روڑ پہنچے تو ایگل اسکواڈ کے 4 عہدیدار سامنے آئے اور سدا بہار ٹرمینل پر رکنے کا اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'جیسے ہم آگے بڑھے تھے تو انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں میرا کزن فیضان شدید زخمی ہوا اور موقع پر دم توڑ گیا جبکہ میں زخمی تھا'۔

ایف آئی آر پولیس کے 4 عہدیداروں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 324 اور 34 کے تحت درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق 'ابتدائی تفتیش' میں فیضان جتک کو گردن اور کمر میں گولی لگی ہے۔

بعد ازاں مشتعل مظاہرین نے سریاب روڈ بلاک کردیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اس عمل کو 'وحشیانہ' قرار دیا۔

احتجاج کے باعث کوئٹہ کو بلوچستان کے جنوبی اور مغربی علاقوں سے ملانے والی سڑک میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

سوشل میڈیا پر بھی واقعے کو اجاگر کیا گیا اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے وزیر میر ضیااللہ لانگو نے واقعے کا نوٹس لیا اور انکوائری کا حکم دے دیا۔

صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ 'فائرنگ سے نوجوان فیضان جتک کی ہلاکت اور ان کے ساتھی کے زخمی ہونے کے دلخراش واقعے پر 'بہت افسوس ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ 'پولیس کے اعلیٰ حکام نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری انکوائری کے احکامات جاری کردیے ہیں، انشااللہ انصاف کا بول بالا رہے گا'۔

فیضان جتک قبائلی رہنما میر داد محمد جتک کے بیٹے تھے اور ان کی نماز جنازہ آبائی علاقے دشت میں ادا کی گئی۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: ڈی سی آفس کے قریب بم دھماکا، 2 افراد جاں بحق

خیال رہے کہ چند ماہ قبل اسلام آباد میں 21 سالہ طالب علم اسامہ ستی کے قتل پر 5 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسامہ ستی کو پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی کرائسس رسپورنس ٹیم (سی آر ٹی) کے عہدیداروں نے قتل کیا۔

پولیس عہدیداروں کا کہنا تھا کہ سی آر ٹی ٹیم ایک ڈرائیور سمیت 5 پویس عہدیداروں پر مشتمل تھی اور اسامہ ستی کی کار پر ڈرائیور کو قابو کرنے کے بجائے مارنے کے لیے فائرنگ کی تھی۔

'انسانی حقوق کونسل کی نصف رکن ریاستیں رضاکاروں سے انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہیں'

شوہر سے علیحدگی سے قبل ہی ملینڈا گیٹس ارب پتی بن گئیں

خلیجی و عرب ممالک میں قید پاکستانیوں کی بھی خبر گیری کیجیے