نقطہ نظر

’حالات کسی طوفان کے آنے کی خبر دے رہے ہیں‘

جب بھی پریشانی آتی ہے تو 3 کے مجموعے میں آتی ہے پی ٹی آئی کے معاملے میں یہ مجموعہ شہباز شریف، جہانگیر ترین اور زلفی بخاری ہیں۔

کسی چیز پر اب زوال آنے کو ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ہے؟ یا پھر کون ہے؟

دارالحکومت میں ایک کے بعد ایک واقعات رونما ہورہے ہیں اور آنے والے پیر کو ایک اور اہم واقعہ متوقع ہے (اس بارے میں آگے چل کر تفصیل سے بات کریں گے)۔

جب بھی کوئی پریشانی آتی ہے تو وہ تین کے مجموعے میں آتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے معاملے میں تین کا مجموعہ شہباز شریف، جہانگیر ترین اور سب سے بڑھ کر زلفی بخاری کی صورت میں سامنے آیا ہے جو اس کے لیے خوف، عدم تحفظ اور سب سے بڑھ کر گھیراؤ کا باعث بن رہا ہے۔

لیکن ٹھہریے۔ کیا سیاست اور سیاستدان بغیر کسی وجہ کے ہی گھبرا رہے ہیں۔

چونکہ پی ٹی آئی طاقت کے کھیل میں ابھی نئی ہے اس وجہ سے یہ خطرے کے اشاروں کو آخری حملہ سمجھنے کی غلطی کرسکتی ہے۔ ریڈ زون کی سیاست پر گزشتہ 3 دہائیوں سے قریبی نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ کسی بھی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

یہ حالات بالترتیب کچھ اس طرح ہوتے ہیں:

پی ٹی آئی پہلے 4 مراحل سے گزر چکی ہے اور اب شاید پانچویں یا چھٹے مرحلے پر کھڑی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ساتویں، آٹھویں یا نویں مرحلے پر پہنچے اسے چاہیے کہ ذرا رک کر اپنی حکمتِ عملی پر دوبارہ غور کرے۔

اگر سیاسی فیصلوں پر عدم اعتماد اور خوف حاوی ہوجائے تو پھر غلطیاں ہوتی ہی ہیں۔ جہانگیر ترین کی جانب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی بلاک بنانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کے اندر جاری خانہ جنگی کو مزید ہوا دے گا۔

یہ جہانگیر ترین کے لیے کوئی آسان قدم نہیں تھا۔ وہ کوئی جلد باز شخص نہیں ہیں۔ وہ بہت محتاط انداز میں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ فیصلہ بھی نہ صرف بہت سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد کیا گیا ہوگا بلکہ اس کے کئی ایسے محرکات اور اثرات بھی ہوں گے جو ابھی نظر نہیں آرہے۔ یہ بھی حالات کے رونما ہونے کی ایک ترتیب ہے۔

مزید پڑھیے: جہانگیر ترین کے حامیوں نے قومی اور پنجاب اسمبلی میں گروپ بنا لیا

یہی ترتیب آنے والے پیر کو ظاہر ہوسکتی ہے۔ پیر کی دوپہر ریڈ زون کے اندر ایک اہم میٹنگ متوقع ہے۔ وہ جگہ جہاں کابینہ کے وزرا اور دیگر طاقتور شخصیات رہتی ہیں وہاں حزبِ اختلاف کی ایک بڑی بیٹھک لگنے جارہی ہے۔ اور ہاں یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد میں ایک نئی روح پھونکنے کی پہلی سنجیدہ کوشش ہوگی۔

قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے ایک قدم اٹھاتے ہوئے ایوان میں موجود تمام اپوزیشن جماعتوں کو کھانے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو خصوصی دعوت نامے بھیجے گئے ہیں، اور بلائے گئے افراد میں سے اکثر کی شرکت متوقع ہے۔ شاید معاملات دوبارہ پٹری پر آگئے ہیں۔

یہی ترتیب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تبدیل ہوتی ہوئی حکمتِ عملی میں بھی نظر آئی۔ اندورنی حلقوں کا کہنا ہے کہ جماعت کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت کو محاذ آرائی سے پیچھے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

جماعت کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ ’میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 99 فیصد اراکینِ پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں‘۔

تو کیا (ن) لیگ نے اس حوالے سے اصولی فیصلہ کرلیا ہے؟ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اب شہباز شریف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں اور حالات بھی کچھ اس قسم کے اشارے دے رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوجائے گا۔

تو آخر شہباز شریف اور جہانگیر ترین ایسی کیا بات جانتے ہیں جو وزیرِاعظم عمران خان نہیں جانتے؟ یہاں صورتحال کچھ پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ جہانگیر ترین کے ہم خیال تقریباً 40 ارکین اسمبلی ہیں۔ وہ ایک اشارے سے پنجاب میں بزدار حکومت کے پاؤں تلے زمین کھینچ سکتے ہیں۔ وہ اور ان کے حامی چاہے کتنا ہی کہتے رہیں کہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور رہیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد اور لاہور میں پارلیمانی بلاک کا بننا ہی اپنے آپ میں اس دعویٰ کا رد ہے۔

جہانگیر ترین گروپ میں اکثر مضبوط سیاستدان ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی فکر نہیں ہے۔ بلکہ وہ شاید پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدے دار کی بات سے اتفاق کریں کہ اس وقت پنجاب میں سب سے اہم ٹکٹ مسلم لیگ (ن) کا ہے۔

لیکن کیا اس وقت اس ٹکٹ کی ضرورت ہے؟ پنجاب میں چٹکی بجاتے ہی تبدیلی آسکتی ہے لیکن پنجاب کے ایک سیاستدان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب تک اپنی ترجیحات میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ تو کیا جہانگیر ترین نے کسی حمایت کی یقین دہانی کے بغیر ہی معاملات کو اتنا آگے بڑھا دیا؟ قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے ممبر رہنے والے ایک سیاستدان کا کہنا ہے کہ شاید ایسا نہیں ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ ’نظام‘ نے ابھی کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ جس کے سبب حکمران جماعت کے اراکین کسی نئی چھتری کے نیچے جمع ہوجائیں۔

دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جہانگیر ترین نے شاید یہ تو ظاہر کردیا ہے کہ وہ حکومت کو لچک دکھانے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ اسے گرانا چاہتے ہیں۔ تو کیا یہ ایک طرح کی تنبیہہ ہے؟ ریڈ زون میں بیٹھے وہ افراد جو نقطے ملانا جانتے ہیں اب حالات کی ترتیب کو سمجھنے لگے ہیں۔ طاقت کے سنگھاسن پر بیٹھے لوگ نسبتاً کم طاقت کے حامل لوگوں سے ناخوش ہیں اور ان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی مشکلات ایک بڑی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔

اسی وجہ سے پی ٹی آئی کو راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کا سامنا ہوا۔ عدم تحفظ اور کارکردگی کے حوالے سے اضطراب کی شکار حکومت کے لیے کوئی بڑا اسکینڈل مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ وہ پاکستانی طرزِ حکومت میں کوئی انوکھی جماعت ہوگی؟ رنگ روڈ اسکینڈل سے زیادہ نقصان دہ چیز اس سے نمٹنے میں حکومت کو ہونے والی الجھن ہے۔

مزید پڑھیے: رنگ روڈ اسکینڈل: وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری مستعفی

زلفی بخاری کا اپنا عہدہ چھوڑنے کو دونوں طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومت اسے احتساب کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن ریڈ زون کے اندر ہونے والی چہ مگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے دیگر وجوہات بھی ہیں۔

زلفی بخاری وزیرِاعظم کے قریب ترین مشیر سمجھے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے اندرونی حلقوں میں بھی عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ تو آخر زلفی بخاری نے ایسا کیا کام کیا جس کی وجہ سے انہیں وزیرِاعظم کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ریڈ زون کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تناؤ کافی عرصے سے موجود تھا۔

پاکستانی سیاست اب پرانے اور دیکھے بھالے راستے پر چل پڑی ہے۔ شہباز شریف اختلافات کو ختم کرنے اور اپنی جماعت اور حزبِ اختلاف کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی قیمت پی ٹی آئی کو ادا کرنی پڑے گی۔

جہانگیر ترین اپنے دو پارلیمانی بلاک کے ساتھ حکومت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ اس دوران وہ اپنے مخصوص انداز میں اداروں کی حمایت بھی حاصل کریں گے۔

زلفی بخاری پی ٹی آئی کے لیے کئی چھوٹی مشکلات میں سے ایک مشکل بن جائیں گے جس کا فائدہ حزبِ اختلاف کو ہوگا۔ تاہم طاقت کے اس کھیل میں آخری اور فیصلہ کن وار ہونے میں ابھی وقت ہے۔

آخر میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ کالی گھٹائیں چھا رہی ہیں اور حالات کسی طوفان کے آنے کی خبر دے رہے ہیں۔


یہ مضمون 20 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فہد حسین

لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔