دنیا

’دھوکے سے انٹرویو‘ کرنے کا الزام ثابت ہونے پر بی بی سی کی معذرت

برطانوی نشریاتی ادارے پر الزام تھا کہ اس کے صحافی نے 25 سال قبل لیڈی ڈیانا کو غلط معلومات دے کر ان کا انٹرویو کیا تھا۔

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی انتظامیہ نے 25 سال قبل شہزادی ڈیانا کا انٹرویو ’دھوکے‘ سے کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر شاہی خاندان سے معذرت کرلی۔

بی بی سی اور اس کے صحافی بشیر مارٹن پر الزام تھا کہ انہوں نے 1995 میں لیڈی ڈیانا اور اس کے بھائی کو جعلی دستاویزات دکھا کر انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا۔

پاکستانی نژاد صحافی بشیر مارٹن پر الزام تھا کہ انہوں نے لیڈی ڈیانا کے بھائی کو برطانوی خفیہ اداروں کے بینک اکاؤنٹس کے ایسے دستاویزات دکھائے تھے، جن سے ثابت ہو رہا تھا کہ خفیہ ادارے شاہی خاندان کے دو اہم ترین افراد کو لیڈی ڈیانا کی ذاتی معلومات دینے کے عوض رقم دیتے آ رہے تھے۔

اور ایسی دستاویزات اور من گھڑت باتیں بتائے جانے کے بعد ہی لیڈی ڈیانا نے بشیر مارٹن کو انٹرویو دینے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔

مذکورہ انٹرویو کو ’پینوراما انٹرویو‘ بھی کہا جاتا ہے، جس میں لیڈی ڈیانا نے شہزادہ چارلس سے طلاق سمیت شاہی خاندان میں اپنی زندگی کی مشکلات پر کھل کر بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈی ڈیانا کے 25 سال پرانے انٹرویو پر تنازع

مذکورہ انٹرویو کو دنیا بھر میں 2 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا تھا اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، اسی انٹرویو کے دو سال بعد 1997 میں لیڈی ڈیانا پیرس میں ایک روڈ حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

مذکورہ انٹرویو کے لیے لیڈی ڈیانا کو غلط معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر بی بی سی نے 1996 میں بھی معافی مانگی تھی۔

تاہم گزشتہ برس ستمبر میں لیڈی ڈیانا کے بھائی کی جانب سے پرانے انٹرویو سے متعلق دوبارہ بات کرنے کے بعد بی بی سی نے نومبر 2020 میں مذکورہ معاملے کی تفتیش کا اعلان کیا تھا۔

بی بی سی نے تفتیش کے لیے ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو مقرر کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ 20 مئی کو پیش کی۔

اسی حوالے سے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تفتیشی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ لیڈی ڈیانا کو دھوکا دے کر ان سے انٹرویو لیا گیا۔

مذکورہ رپورٹ میں بشیر مارٹن کو قصور وار ٹھہرانے سمیت بی بی سی کی اعلیٰ انتظامیہ کو بھی اس میں شریک ملزم قرار دیا گیا۔

بی بی سی کے مطابق مذکورہ رپورٹ آنے کے بعد ادارے نے تحریری طور پر شاہی خاندان اور خصوصی طور پر شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری سے معافی مانگی ہے۔

علاوہ ازیں بشیر مارٹن نے بھی دونوں بھائیوں سے غیر مشروط معافی مانگی۔

اسی حوالے سے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بتایا کہ تفتیشی رپورٹ آنے کے بعد بی بی سی پر شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری سمیت دیگر افراد کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

تاہم بی بی سی کی انتظامیہ نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے لیڈی ڈیانا کے دونوں بیٹوں سے تحریری طور پر غیر مشروط معافی مانگی ہے۔

علاوہ ازیں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ سامنے آنے پر شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری نے الگ الگ بیانات میں 25 سال پرانے انٹرویو پر سخت تنقید کی۔

دونوں بھائیوں نے بی بی سی انتظامیہ اور بشیر مارٹن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’دھوکے سے لیے گئے انٹرویو‘ نے ان کی والدہ کی ذہنی پریشانیوں کو بڑھایا۔

شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ اگر 25 سال قبل بشیر مارٹن اور بی بی سی ان کی والدہ کو غلط معلومات نہ دیتے تو ان کی ذہنی پریشانیاں نہ بڑھتیں اور ان کے والدین کے تعلقات بھی کشیدہ نہ ہوتے۔

ساتھ ہی شہزادہ ولیم نے کہا کہ اگر بی بی سی نے 1996 میں ہی مذکورہ انٹرویو کو ’دھوکے‘ پر مبنی انٹرویو قرار دے کر معذرت کی ہوتی اور حقائق سامنے لائے ہوتے تو بھی ان کی والدہ کو سکون مل سکتا تھا۔

بڑے بھائی کی طرح شہزادہ ہیری نے بھی والدہ کو غلط معلومات دے کر ان سے انٹرویو لیے جانے پر تنقید کی اور کہا کہ میڈیا میں جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

دونوں بھائیوں کے علاوہ متعدد صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کی جانب سے بھی بی بی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ایک معتبر ادارے نے اتنا بڑا غلط کام کیسے کیا؟

خیال رہے کہ بشیر مارٹن نے مذکورہ رپورٹ آنے سے قبل 10 دن قبل ہی زائد العمری اور صحت کی خرابی کے باعث بی بی سی سے ملازمت سے علیحدگی اختیار کی تھی۔

بشیر مارٹن کئی دہائیوں سے بی بی سی سے منسلک تھے اور وہ اس وقت مذہبی معاملات کے علاقائی ڈائریکٹر تھے۔

کم عمری میں ’ریپ‘ سے حاملہ ہونے پر ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی، لیڈی گاگا

اداکارہ امر خان طوفان میں رپورٹنگ کرنے والی صحافی کی معترف

فوربز '30 انڈر 30' میں شامل عبداللہ صدیقی نے موسیقی کا سفر کیسے شروع کیا؟